سندھ کے بلدیاتی انتخابات میں تنازعات عام انتخابات کیلیے ٹھیک نہیں، فافن

بلدیاتی انتخابات میں بہت سے تنازعات انتخابات سے متعلق قانون ڈھانچے کی  کمزوریوں کی وجہ سے پیدا ہوئے، انہیں تمام  سیاسی کرداروں کے درمیان بات چیت کے ذریعےٹھیک کرنے کی ضرورت ہے، سندھ میں بلدیاتی الیکشن کے دوسرے مرحلے سے متعلق جائزہ رپورٹ

فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) نےکہا ہےکہ ایسے وقت میں جب سیاسی جماعتیں عام انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہیں،  سندھ کے حالیہ بلدیاتی  انتخابات میں سامنے آنے والے تنازعات عام انتخابات کیلیے ٹھیک نہیں ہیں۔

ایک مشاہداتی رپورٹ میں فافن نے قرار دیا کہ بلدیاتی انتخابات میں بہت سے تنازعات انتخابات سے متعلق قانون ڈھانچے کی  کمزوریوں کی وجہ سے پیدا ہوئے، انہیں تمام  سیاسی کرداروں کے درمیان بات چیت کے ذریعےٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھیے

کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے مشکوک نتائج کے بعد ہنگامے پھوٹ پڑے

جماعت اسلامی اور تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کو شفاف بلدیاتی انتخابات کرانے میں ناکام قرار دیدیا

رپورٹ میں کہا گیا کہ ’’جب تک انتخابات سیاسی استحکام کا باعث نہیں بنتے، جمہوریت سازی کا عمل ،عوام کا جمہوریت پر اعتماد ،عوام کی سماجی اور معاشی بہبود کو بہتر بنانے کی صلاحیت  کمزور ہوتی رہے گی‘‘۔رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ” اس کے ساتھ ساتھ  الیکشن کمیشن   کوسیاسی  کرداروں  کے جائز خدشات کھل کر سننےاور انہیں حل کرنے کی ضرورت ہے‘‘  ۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ بدین، جامشورو، ٹنڈو محمد خان، ٹنڈو اللہ یار، ٹھٹھہ اور ملیر ضلع میں ووٹرز کی تعداد ”متاثرکن “رہی   جبکہ حیدرآباد کے علاوہ کراچی  کے ضلع وسطی، شرقی، غربی، جنوبی،  اور کیماڑی میں ووٹرز  کی شرح نسبتاًکم رہی ۔

فافن نے مزید کہا ہے کہ بلدیاتی انخابات کے پہلے مرحلے کے برعکس دوسرے مرحلے میں ووٹنگ کا عمل پرامن رہا تاہم  پولنگ سٹیشنز کے اندر اوراطراف انتخابی مہم سے متعلق قانونی اور طریقہ کار سے متعلق بے ضابطگیاں اور پہلے مرحلے کی طرح  دوسرے مرحلے میں بھی بیلٹ  کے اجرا کا  عمل متاثر رہا  ۔

 فافن کے مبصرین نے دوسرے مرحلے کے دوران پولنگ اسٹیشن کے رزلٹ فارم (فارم 11) میں  کمی اور کوتاہی کی نشاندہی کرتے ہوئے بتایا ہے کہ پریزائیڈنگ افسران نے نتائج کے فارم کو صحیح طریقے سے پُر نہیں کیا اور پولنگ سٹیشنوں کے ناموں، رجسٹرڈ ووٹرز، ڈالے گئے ووٹوں کی صنفی تفریق شدہ تعداد درج نہیں کی اور پولنگ حکام کے دستخطوں کی جگہیں خالی چھوڑدیں۔

رپورٹ میں عام انتخابات سے قبل پولنگ سٹیشنوں پر پولنگ ڈے کے انتظام کو بہتر بنانے کے لیے انتخابی مہم اور الیکشن کے دن کنونسنگ کے حوالے سے ضابطہ اخلاق پر سختی سے عمل درآمد کو یقینی بنانے، مناسب جگہ پر پولنگ بوتھ کے قیام ، ووٹر کی شناخت اور بیلٹ جاری کرنے کے عمل کی تعمیل، خواتین پولنگ بوتھوں پر خواتین عملے کی دستیابی اور بنیادی سہولتوں کی فراہمی کو یقینی بنانے کی سفارش کی گئی ہے ۔

فافن نے کہا کہ اس کے مشاہدات 343 شماریاتی نمونوں والے پولنگ اسٹیشنوں پر تعینات "تربیت یافتہ اور مستند شہری مبصرین” سے موصول ہونے والی رپورٹس پر مبنی تھے۔

فافن  نے کہا کہ اس نے 104 مبصرین کو تعینات کیا جنہوں نے 90 پولنگ اسٹیشنوں پرپولنگ کے آغاز،  953 پولنگ بوتھوں پر انتخابی عملے اور ووٹنگ کے عمل میں مواد کی دستیابی، 1121 ووٹرز  کی  شناخت ، بیلٹ پیپر کے اجرا کے عمل اور 74 پولنگ اسٹیشنوں پر گنتی کے عمل کا مشاہدہ کیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ بلدیاتی الیکشن کے دوسرے مرحلے کے دوران پولنگ کا عمل پرامن اور منظم تھا اور مناسب حفاظتی انتظامات کے ساتھ کچھ پولنگ اسٹیشنوں پر زبانی جھگڑوں کے واقعات دیکھنے میں آئے  ۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ بلدیاتی الیکشن کے دوسرے مرحلے میں انتخابی مہم اور ووٹرز کو راغب کرنے حوالے سے پابندیوں پر پہلے مرحلے کے مقابلے میں کوئی خاطر خواہ بہتری دیکھنے میں نہیں آئی۔تمام  بڑی جماعتوں اور امیدواروں کو پولنگ اسٹیشنوں کے قریبی علاقوں میں ووٹرز کو راغب کرتے دیکھا گیا جبکہ کچھ علاقوں میں  پولنگ اسٹیشنوں کے اندر  بھی ایسی مثالیں سامنے آئیں۔

فافن کے علم میں آیا ہے کہ   زیادہ تر پولنگ اسٹیشنوں پر بیلٹ کی گنتی کے لیے مناسب طریقہ کار پر عمل کیا گیا، کہا گیا کہ انتخابی عملہ عام طور پر گنتی کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔مشاہدے میں آنےو الے89 فیصد پولنگ اسٹیشنوں پر، پریزائیڈنگ افسران نے بیلٹ بکس کو کھولنے اور گنتی شروع کرنے سے پہلےانہیں  ایک مرکزی مقام پر رکھ دیا۔

64 فیصد پولنگ اسٹیشنوں کے دروازے گنتی شروع ہونے سے پہلے بند کر دیے گئے تھے تاکہ گنتی کے دوران کوئی بھی شخص کمرے سے باہر نہ جا سکے اور نہ ہی اندر جا سکے۔ مشاہدہ کیے گئے پولنگ اسٹیشنز میں سے 4 فیصد پر گنتی کے عمل کے دوران غیر مجاز افراد موجود تھے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ مشاہدہ کیے گئے پولنگ اسٹیشنوں میں سے 18 فیصد پریزائیڈنگ افسران نے پولنگ ایجنٹس کی درخواست پر بیلٹ کی دوسری گنتی کی جب کہ 45 فیصد افسران  نے ازخود ووٹس کی دوبارہ گنتی کی  ۔ مزید برآں پولنگ ایجنٹس اور سیکیورٹی اہلکاروں کو بالترتیب 12 فیصد اور 4 فیصد پولنگ اسٹیشنوں پر بیلٹ پیپرز کو چھوتے ہوئے دیکھا گیا۔

مبصرین کے مطابق مشاہدے میں آنے والے  اکثر پولنگ بوتھوں   پر انتخابی مواد دستیاب تھا۔ مشاہدے میں آنے والے 93فیصد پولنگ بوتھوں پر انمٹ سیاہی اور اسٹیمپ پیڈز دستیاب تھے، 92 فیصد بوتھس پر انتخابی فہرستیں اور رازداری کا اہتمام تھا،93 فیصد بوتھس پر بیلٹ پر نشان لگانے کیلیے 9 خانوں والی مہر دستیاب تھی،89 فیصد الیکشن کمیشن کی سرکاری مہر اور 90فیصد پولنگ بوتھس پر شفاف بیلٹ باکس دستیاب تھے“۔

متعلقہ تحاریر