ایک طرف اے پی سی میں شرکت کی دعوت دوسری جانب ایف آئی آر، ایسا نہیں چلے گا، شاہ محمود قریشی

شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ شہباز شریف صاحب پہلے فیصلہ کیجئے الزامات لگانے ہیں یا اے پی سی میں شرکت کی دعوت دینی ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین اور سابق وفاقی وزیر شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ دو چیزیں اکٹھی نہی چل سکتیں ایف آئی آر بھی ہو رہی ہیں اور دعوت بھی دے رہے ہیں ، فیصلہ کیجے آپ کرنا کیا چاہتے ہیں؟۔

لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ شہباز شریف نے 7 فروری کو آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) میں شرکت کی دعوت دی ہے۔ ہمارے حکومت سے کچھ سوالات ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

افغانستان کی مدد کے بغیر پاکستان میں دہشتگردی ختم نہیں ہوسکتی، فواد چوہدری

سانحہ پشاور ہوا نہیں اور انہوں نے الیکشن ملتوی کرنے کی باتیں کردیں، عمران خان کا حکومت پر الزام

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ایک طرف آپ ایف آئی آر درج کروا رہے ہیں آپ اپنی صفوں میں تلاش کریں مفاہمت چاہتے ہیں یا مزاحمت چاہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر آپ تحریک انصاف کی بات کریں تو تحریک انصاف دونوں کے لیے تیار ہے۔

اسٹیبلشمنٹ کو مخاطب کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ اداروں سے پوچھنا چاہتا ہوں آپ سیاست دانوں کا تعاقب کریں گے یا صحافیوں کا؟۔ قانون کی حکمرانی ہوگی یا سیاسی انجینئرنگ ہوگی؟۔

وائس چیئرمین تحریک انصاف کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کی آئینی زمہ داری صاف شفاف الیکشن ہے یا من پسند نتائج کا حصول؟۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب میں دکھائی دے رہا ہے جہاں ضمنی انتخابات ہونے ہیں وہاں ہدایات کی جارہی ہے ہیں جس سے لگتا ہے من پسند نتائج حصول ہونگے، اگر ایسا ہوتا ہے تو الیکشن کمیشن اور پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔

وزیراعظم پر تنقید کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ "شہباز شریف صاحب پہلے فیصلہ کیجئے الزامات لگانے ہیں یا اے پی سی میں شرکت کی دعوت دینی ہے، دو چیزیں اکٹھی نہی چل سکتیں ایف آئی آر بھی ہوں اور دعوت بھی دے رہے ہیں۔ فیصلہ کیجے آپ کرنا کیا چاہتے ہیں؟۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ مجھے وزیر اعظم کی بے حسی پر تعجب ہوا، خیبرپختونخوا حالت سوگ میں ہے وہ کہتے ہیں خیبرپختونخوا کی حکومت 471 ارب کا حساب دیں، ہم حساب سے نہیں کتراتے ، مگر آپ اپنے دور حکومت کے حسابات دے دیں۔

تحریک انصاف کے رہنما کا کہنا تھا کہ شہباز شریف آپ کے بھائی وزیر اعظم رہے آپ  وزیراعلی رہےدہشتگری آج کی نہیں ہے، کیا آپ پنجاب میں دہشتگردی کے فنڈز کا حساب دینے کے لیے تیار ہیں۔

سابق وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ایک سازش کے ذریعے تحریک انصاف کی حکومت ہٹائی جاتی ہے اور امپورٹڈ حکومت مسلط کی جاتی ہے۔ نو ماہ کا حساب کرتے ہیں۔ آپ کا فوکس بدل گیا آپکی ترجیحات میں تبدیلی آئی۔ قوم کی ترجیحات میں دہشتگردی کی خلاف جنگ شامل تھی معیشت کی بحالی شامل تھی۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ قوم گواہ ہے کہا سب سے پہلے ٹی ٹی پی سے بات چیت کا اظہار نواز شریف نے کیا تھا، جب بات چیت ناکام ہوئی تو ضرب عضب کا آغاز ہوا، ضرب عضب کا آغاز بہتریں تھا جس نے دہشت گردی کو ایک کونے سے لگایا ، دہشت گردی کے واقعات کم ہوئے۔

اپنی حکومت کو کریڈٹ دیتے ہوئے شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت میں دہشتگردی کے واقعات میں خاطر خواہ کمی آئی، دنیا کہتی تھی پاکستان نے دہشتگردی سے سیاحت کا سفر شروع کر لیا ہے۔ خیبرپختونخوا کراچی بلوچستان کے لوگوں نے سکھ کا سانس لیا تھا۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی سے مذاکرات کی بات ہوئی تو کیا سول اور ملٹری اتفاق رائے نہیں تھا۔ کیا آپ بحثیت اپوزیشن لیڈر اس اتفاق رائے کا حصہ نہیں تھے؟ طالبان کی حکومت کے قیام کے وقت بہت سارے ماہرین کا اندازہ تھا کہ وہاں انڈین اور را کا اثر کم ہوا ہوگا۔ افغانستان کی نئی حکومت کہہ رہی ہے کہ ہم پاکستان کے خلاف افغانستان کی سرزمین استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ سب کے اتفاق رائے سے ٹی ٹی پی مذاکرات نیک نیتی کے ساتھ شروع کیے گئے۔جب ہم نے کوشش کی گفتو شنید سے امن آئے۔

ان کا کہنا تھا ہم چاہتے ہیں کہ امن آئے ،کاروبار چلے ، معیشت فروغ پائے، کبھی تحریک انصاف کے زہن میں یہ تصور نہیں آیا کہ پاکستان کے آئین کی حدود کو نظروں سے اوجھل کر کے گفتگو کی جائے گی۔

متعلقہ تحاریر