جنرل باجوہ اور شہباز شریف کے قریبی تعلقات رجیم چیج کی وجہ بنے، عمران خان
چیئرمین تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ پاکستان کی معیشت بری طرح تباہ ہو چکی ہے ، اس وقت پاکستان تاریخ کے بدترین معاشی اور سیاسی بحران سے گزر رہا ہے۔
سابق وزیراعظم اور چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کی ساکھ کو مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا ہے اس صورت میں شفاف انتخابات کا انعقاد ناممکن ہے ، سندھ کے بلدیاتی انتخابات کو تمام سیاسی جماعتوں نے مسترد کیا۔
ان خیالات کا اظہار چئیرمین تحریک انصاف عمران خان نے وائس آف امریکہ کو خصوصی انٹرویو دیتے کیا۔ ملکی سیاسی صورتحال، بگڑتے ہوئے معاشی حالات اور دہشت گردی کے حوالے سے تحریک انصاف کی حکمت عملی سمیت اہم امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔
یہ بھی پڑھیے
وزیراعظم صبح 6 بجے اور اسحاق ڈار فجر کے بعد کام شروع کردیتے ہیں، مریم نواز
مریم نواز کے چیف آرگنائزر بننے کے بعد پارٹی ڈس آرگنائز ہوگئی
عمران خان کا کہنا تھا کہ فوج کی تمام پالیسیوں کا انحصار صرف ایک فرد کی شخصیت پر ہوتا ہے ، ہماری حکومت اور جنرل باجوہ کے مابین مثبت تعلقات کے نتیجے میں ہمیں پاک فوج کی منظم حمایت حاصل رہی، حکومت اور عسکری ادارے کی مشترکہ کوششوں سے کورونا کا بہترین انداز میں مقابلہ کیا۔
سربراہ تحریک انصاف کا کہنا تھا کہ جنرل باجوہ اور ہمارے درمیان مسائل تب پیدا ہوئے جب انہوں نے ملک کے چند بڑے مجرموں کی حمایت کی ، جنرل باجوہ چاہتے تھے کہ ہم ان چوروں کی کرپشن معاف کر کے ان کے ساتھ مل کر کام کریں ، جنرل باجوہ کے شہباز شریف کے ساتھ قریبی تعلقات تھے جن کے نتیجے میں رجیم چینج آپریشن کیلئے راہ ہموار ہوئی۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ عوام کی منتخب کردہ حکومت کے پاس ذمہ داری کے ساتھ ساتھ اختیار بھی ہونا چاہیئے ان دونوں کو علیحدہ نہیں رکھا جا سکتا، جب اختیار آرمی چیف کے پاس اور ذمہ داری وزیر اعظم کے پاس ہو تو نظام نہیں چل سکتا، ملک کی نئی عسکری قیادت میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ رجیم چینج آپریشن ناکام ہو چکا ہے۔
سابق وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی معیشت بری طرح تباہ ہو چکی ہے ، اس وقت پاکستان تاریخ کے بدترین معاشی اور سیاسی بحران سے گزر رہا ہے۔
سربراہ تحریک انصاف کا کہنا تھا کہ افغانستان میں کسی بھی حکومت کے ساتھ پاکستان کے اچھے تعلقات کا ہونا ناگزیر ہے، میں نے غنی حکومت کے ساتھ تعلقات بہتر رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی تاکہ وہ دہشت گردی کی صورت میں ہماری معاونت کر سکیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے وزیر خارجہ نے اپنا سارا وقت بیرونی دوروں پر صَرف کیا لیکن افغانستان کا ایک بھی دورہ نہیں کیا، ہم اس وقت دہشت گردی کے خلاف ایک اور جنگ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ جب طالبان نے افغانستان کی حکومت سنبھالی تو 30 سے 40 ہزار مہاجرین کو پاکستان بھیجنے کا فیصلہ کیا، ہمارے لیے ان کی دوبارہ آباد کاری ایک بہت بڑا چیلنج تھا لیکن ہماری حکومت ختم ہونے کی وجہ سے مکمل نہ ہو سکا ، اس دوران نئی حکومت آئی جس کی غفلت کی وجہ سے دہشت گردی نے ایک بار پھر سر اٹھانا شروع کر دیا۔
پی ٹی آئی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی تعلقات کی بنیاد کسی کی ذاتی انا پر نہیں بلکہ ملکی مفادات پر ہونی چاہئے، پاکستان کے لوگوں کا مفاد اس میں ہے کہ ہمارے امریکہ کے ساتھ بہترین تجارتی تعلقات ہوں۔
عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ روس اور یوکرین کے تنازعے میں ہم نے غیر جانبدار رہنےکا فیصلہ کیا ، کسی ایک فریق کی حمایت سے آپ اپنے لوگوں کے مفادات کو متاثر کرتے ہیں۔
سابق وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ بحیثیت وزیر اعظم میری ترجیح میرے ملک کی 22 کروڑ عوام تھی ، پاکستان جیسا ملک جس کی بڑی آبادی خط غربت سے نیچے ہو وہ اخلاقی بیانات دینے کی استطاعت نہیں رکھتا ہے۔