ازخود نوٹس کیس میں فیصلہ 2-3 سے نہیں 3-4 سے آیا تھا، مولانا فضل الرحمان
جے یو آئی (ف) کے سربراہ کا کہنا ہے اس بات کا نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور سابق لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید آج بھی عمران خان کے لیے لابنگ کررہے ہیں۔
جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی ف) اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ دونوں صوبائی اسمبلیوں کے ٹوٹنے کی تاریخ بھی ایک نہیں ہےاور نہ ہی انتخابات کی تاریخ ایک ہے۔ دونوں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابی شیڈول دینے کا اختیار بھی یکساں منصب کے پاس نہیں ہے۔ ابھی مردم شماری ہورہی ہے ، چنانچہ جب دو صوبوں کے انتخابات ہوں گے ، تو وہ پرانی مردم شماری کی بنیاد پر ہوگا ، اور جب آئندہ عام انتخابات ہوں گے تو وہ نئی مردم شماری کے مطابق ہوں گے۔
ان خیالات کا اظہار جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ ان کا کہنا تھا جب عام انتخابات ہوں گے جس میں وفاق اور دو صوبوں کے عام انتخابات ہوں گے ، وہاں مردم شماری کی نوعیت کچھ اور ہوگی ، ایک ہی ملک کے اندر مختلف صوبوں کے عوام کی نمائندگی میں کتنا فرق آئے گا ، کتنا حق مارا جائے گا ، ان لوگوں کا جو اس وقت پاکستان کے شہری بننے جارہے ہیں ، ووٹ کا مستحق بننے کی طرف جارہے ہیں ، ووٹ کے اندراج کی طرف جارہےہیں۔ اور ہم ان کو محروم کرنے جارہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
مضحکہ خیز مقدمات میں مجھے عدالتوں میں بلاکر قتل کی پلاننگ ہورہی ہے، عمران خان
عمران خان نے پورے ملک میں ایک ساتھ انتخابات کرانے کا مطالبہ کردیا
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ کیا اسمبلیاں وزرائے اعلیٰ نے توڑی ہیں یا ایک لیڈر کے کہنے پر انہوں نے اسمبلیاں توڑی ہیں ، ان حقائق کو بھی سامنے رکھا جانا چاہیے۔ آئینی طور پر آپ کہہ سکتے ہیں کہ وزیراعلیٰ نے دستخط کیے ، مگر وزیراعلیٰ کو کس نے حکم دیا وہ بھی کوئی خفیہ بات تو نہیں ہے۔ کیا ہم پاکستان میں سیاست اس طرح سے کریں گے ، یہ ہماری اسمبلیوں کی خودمختاری کی دلیل ہوں گی۔
جے یو آئی (ف) کےسربراہ کا کہنا تھا ہمیں حیرت اس بات پر ہے کہ ہماری سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لے لیا (کہ انتخابی شیڈول کیوں نہیں دیا جارہا)۔ 2018 میں سپریم کورٹ کو ہماری چیخ و پکار سنائی نہیں دی ، یہ کیسے کان ہیں کہ 15 لاکھ لوگوں کی آواز آپ کو سنائی نہیں دیتی ، اور جب ایک دو آدمی آکر آپ کے دروازے کو کھٹکھٹاتےہیں تو آپ کو ان کی آواز سنائی دینے لگتی ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا 90 دن میں انتخابات کرانے ہیں ، یہی سپریم کورٹ تھی جس نے جنرل مشرف سے کہا تھا 3 سال میں انتخابات کرانے ہیں ، وہ کس آئین کا تقاضہ تھا ، آج کہا جارہا ہے کہ 90 روز کے اندر انتخابات آئین کا تقاضہ ہے۔ یہی سپریم کورٹ کبھی آئین میں تبدیلی کا اختیار بھی ایک فرد واحد کو دے دیتا ہے۔
پی ڈی ایم کے سربراہ کا کہنا تھا کہ عمران خان کی ساڑھے سال کی حکومت نے ریاست کو کہاں تک پہنچا دیا ، آج آئی ایم ایف ہمارا بجٹ بنا رہا ہے ، آج آئی ایم ایف ہماری قیمتیں کنٹرول کررہا ہے ، ہمارے اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف کے حوالے کردیا گیا ہے ، مہنگائی کی وجہ سے آج حکومت کے لیے عام آدمی کو اشیائے ضروریہ پہنچانے مشکل ہورہا ہے ، وہیں آج ہم سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ ہم ووٹ کے پرچی کے لیے 80 ارب روپے خرچ کریں ، تاہم ہم کوشش کررہے ہیں کہ ہم بین الاقوامی اداروں کے ساتھ خوش اسلوبی کے ساتھ معاملات طے کریں۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا ہمیں حیرت ہے کہ سپریم کورٹ نے سوموٹو لے کر خود کو فارغ کرلیا ، کہا جارہا ہے کہ دو اور تین کا فیصلہ آیا ہے ، ہمارے نزدیک دو اور تین کا فیصلہ نہیں آیا بلکہ چار اور تین کا فیصلہ آیا ہے، اس لیے یہ پہلو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ہم قانونی ماہرین کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ آئیں اور جرات مندانہ رائے دیں ، کہ جن دو ججز کی رائے کو فیصلے میں شمار کیا جارہا ہے تو پھر ان کو تعداد میں شمار کیوں نہیں جارہا۔
پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا ہمارے علم میں یہ بات آئی ہے کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور سابق لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید اس وقت بھی عمران خان کے لیے لابنگ کررہے ہیں۔ اس کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ادارے فوری طور پر اس کا نوٹس لیں ، اور اگر ہماری معلومات صحیح ہیں تو انہیں لگام دیں ، انہیں کوئی حق حاصل نہیں ہے کہ وہ وقت سے پہلے پاکستانی سیاست میں مداخلت کریں۔ آف دی ریکارڈ کارروائیاں جاری رکھیں ، کیوں؟