کیا نواز شریف شاہد خاقان عباسی کو منانے میں ناکام ہوگئے؟

شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ پارٹی کے اندر کوئی اختلافات نہیں ہیں۔ آج ہم سب کو ملک کی پرواہ کرنی چاہیے۔ ہر ایک کو ڈائیلاگ میں شامل ہونا چاہیے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ حکومت کا کام پراسیکیوشن کرنا ہوتا ہے ، پرسیکیوشن کرنا نہیں ہوتا۔ یہ بات انہوں نے اس وقت کی جب وہ نواز شریف سے ملاقات کے بعد ان کی رہائش گاہ سے باہر نکلے تھے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سابق وزیراعظم کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ حکومت کا کام قانونی اور آئینی طریقے سے کیسز کو چلانا ہوتا ہے ، لوگوں کے خلاف ظالمانہ کارروائیاں کرنا نہیں ہوتا۔ لگتا ہے کہ بڑے میاں صاحب شاہد خاقان عباسی کو منانے میں ناکام ہو گئے ہیں۔

لندن میں میڈیا سے غیررسمی گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ میرے کوئی تحفظات نہیں ہیں اور نہ سیاست میں تحفظات ہوتے ہیں۔ پارٹی کا عہدہ رکھنا میرا ضرورت نہیں ہے، چھ ماہ قبل کہہ دیا تھا جب نئی لیڈرشپ آئے گی تو پارٹی کا عہدیدار نہیں رہوں گا۔ میں پارٹی کا ورکر ہوں پارٹی کے ساتھ ہوں۔

یہ بھی پڑھیے

اگر گیم پلان صرف مجھے راستے سے ہٹانا ہے تو میں کہیں نہیں جارہا، عمران خان

علیم خان کی عون چوہدری اور نعمان لنگڑیال کو وفاقی کابینہ چھوڑنے کی ہدایت

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ میں کوئی بات فائنل کرنے نہیں آیا تھا ، میں چونکہ پیرس آیا ہوا تھا اس لیے میاں صاحب سے ملاقات کے لیے لندن آیا ہوں۔ ان کے ساتھ مشاورت کی ، ہر بات کے نتیجے نہیں ہوتے۔

ایک اور سوال کے جواب میں شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ پارٹی کے اندر کوئی اختلافات نہیں ہیں۔ آج ہم سب کو ملک کی پرواہ کرنی چاہیے۔ ہر ایک کو ڈائیلاگ میں شامل ہونا چاہیے۔ یہ کوئی ذاتی ایجنڈا نہیں ہے۔ یہ ہم سب کا مشترکہ مفاد اور پاکستان کا مفاد ہے۔ ہر ایک سوچنا چاہیے کہ ہمیں ملک کو آگے لے کر کیسے جانا ہے۔

میاں صاحب کی واپسی کے سوال پر رہنما ن لیگ کا کہنا تھا کہ یہ میاں صاحب فیصلہ کریں گے۔ یہ سوال آپ جاوید لطیف سے کرسکتے ہیں وہ اس کا بہتر جواب دے سکتے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ میں پارٹی کا عہدیدار نہیں ہوں ، میں نے جنوری میں اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ اگر الیکشن بامقصد ہوں گے تو میں لڑوں گا۔ بے مقصد الیکشن کا میں قائل نہیں ہوں۔

صحافی نے سوال کیا بامقصد اور بےمقصد میں کیا فرق ہے؟ اس پر ان کا کہنا تھا کہ اس کا مقصد یہ ہے کہ آپ نے آگے کے راستے کا تعین کرنا ہے کہ ملک کیسے چلے گا ، جو آج نظام ہے اس میں کوئی صلاحیت نہیں ہے، نہ پارٹیوں میں صلاحیت ہے کہ وہ ملک کو چلاسکیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ پچھلے دو سال میں ہر جماعت اقتدار میں رہی ہے ، کیا حالات درست ہوئے ہیں؟۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ میرے کوئی خدشات نہیں ہیں۔ میاں صاحب سے 35 سال کا تعلق ہے۔ وہ میرے بھائی بھی ہیں ، دوست بھی ہیں اور لیڈر بھی ہیں۔

ایک اور صحافی کے سوال کے جواب میں شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ مجھے علم میں نہیں کہ شہباز شریف صاحب پیرس آرہے ہیں۔ میں تو ایئرشو کے لیے پیرس آیا تھا۔

ایک اور سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پراسیکیوشن ہونی چاہے پرسیکیوشن نہیں چاہیے۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ جو عمل ہو اس میں پرسیکیوشن نظر نہ آئے۔ کیونکہ پرسیکیوشن ایک  غیرجمہوری ہوتا ہے اور پراسیکیوشن حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اگر توڑ پھوڑ تو اس کے خلاف پراسیکیوشن کرنا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔

صحافی نے سوال کیا اس سال انتخابات دیکھ رہے ہیں؟۔ جس پر رہنما مسلم لیگ (ن) شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ آئین کے مطابق انتخابات اکتوبر یا نومبر میں ہوجانے چاہئیں۔ اس کے علاوہ کوئی چوائس آپ کے پاس نہیں ہے۔

متعلقہ تحاریر