میاں جاوید لطیف اور سینیٹر شوکت ترین کے ایک دوسرے پر غداری کے الزامات
مسلم لیگ ن کے رہنما کہنا ہے کہ آڈیو لیک کے معاملے پر شوکت ترین کے خلاف آرٹیکل 5 کے تحت مقدمہ بننا چاہیے۔
وفاقی وزیر جاوید لطیف نے کہا ہے کہ شوکت ترین کے خلاف آرٹیکل 5 کا استعمال ہونا چاہیے جبکہ رہنما ن لیگ کو جواب دیتے ہوئے سینیٹر شوکت نے کہا ہے کہ جن لوگوں نے اسمبلی فلور پر آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی کاپیاں پھاڑیں تھی ان کے خلاف بھی غداری کا مقدمہ بننا چاہیے۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے میاں جاوید لطیف نے کہا ہے کہ تحریک انصاف والے ریاستی اداروں کو ریت کی دیوار سمجھتے ہیں ، ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم تھے انہیں پھانسی پر لٹا دیا گیا ، اس ملک میں دو تہائی اکثریت رکھنے والے وزیراعظم کو ہائی جیکر قرار دیا گیا مگر ہم نے کبھی کسی کو خط نہیں لکھا۔ تاحیات نااہل کردیا گیا ہم نے کوئی خط نہیں لکھا۔ ہمیں سزائیں ملیں تو ہم نے عالمی تنظیموں کو خط نہیں لکھے۔
یہ بھی پڑھیے
ہائی کورٹ کے فیصلہ پر مریم نواز کی تنقید ، فواد چوہدری کا کرارا جواب
شوکت ترین اور تیمور جھگڑا کی مبینہ آڈیو لیک، کتنی حقیقت کتنا فسانہ؟
وفاقی وزیر جاوید لطیف نے کہا ہے کہ شوکت ترین کی آڈیو لیک پارٹ ون نہیں ہے ، پارٹ ون وہ تھی جب عمران خان نے سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان کیا تھا ، پارٹ ٹو وہ تھا جو عمران خان نے چار سالہ دور اقتدار میں معاشی تباہی کی ، پارٹ تھری وہ تھا جو شہباز گل کو ایک میٹنگ میں یہ ذمہ داری دی گئی کہ ایک ادارے کی اعلیٰ قیادت کے خلاف ماتحت افسران کو بغاوت پر اکسانا ہے ، شوکت ترین تو پارٹ فور ہے۔
میاں جاوید لطیف کا کہنا تھا شوکت ترین کی یہ ذمہ داری لگائی کہ پاکستان کو سری لنکا کیسے بنانا ہے ، بدقسمتی سے پاکستان کو بدترین سیلاب کا سامنا ہے ، سینکڑوں افراد شہید ہوئے اور لاکھوں بےگھر ہوئے ، وسائل کم ہیں اور کام زیادہ ہے ، بحالی میں کئی سال لگ جائیں گے، ملک میں معاشی بدحالی نہ ہوتی تو بحالی کا فوراً شروع کیا جاسکتا تھا۔ پی ٹی آئی رہنما اوورسیز پاکستانیوں اور دیگر ممالک کو پاکستان کی مدد سے روک رہے ہیں۔
سینیٹر شوکت ترین کا کہنا ہے کہ میں کبھی بھی سوچے سمجھے بغیر نہیں بولتا ، آڈیو میں 220 ملین لوگوں کی بات کررہا ہوں انفرادی بات نہیں کررہا۔ یہ میرا موقف ہے کوئی غداری نہیں ہے۔
سابق وزیر خزانہ شوکت ترین کا کہنا ہے اگر یہ غداری ہے تو پھر انہوں نے جنوری میں جو آئی ایم ایف پروگرام ریورس کرنے کا کہنا تھا وہ کیا تھا۔؟