جنرل باجوہ کو ایکسٹنشن اور فوری الیکشن: عمران خان کی ترپ کی چال

اب دیکھنا یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور حکومت وقت کا ردعمل کیا ہو گیا ، عمران خان نے اپنے پتے بالکل واضح کردیئے۔

سابق وزیراعظم اور چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے حکومت کا ایک مرتبہ پھر مذاکرات کی پیش کش کردی ، کہتے ہیں نئے آرمی کا فیصلہ نئی حکومت پر چھوڑ دیا جائے، تب تک جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کردی جائے۔ یعنی اب عمران خان کھل کر حکومت کے سامنے آ گئے ہیں اور انہوں نے اپنے تمام پتے شو کردیئے ہیں۔

دنیا نیوز کے اینکر پرسن کامران خان کو انٹرویو دیتے ہوئے چیئرمین تحریک انصاف کا کہنا تھا اگر حکومت الیکشن کی بات کرتی ہے تو میں بھی بات کرنے کےلیے تیار ہوں ، الیکشن کا نام سن کر ان کو سانپ سونگھ جاتا ہے ، اگر یہ لوگ الیکشن جیت جاتے ہیں پھر اپنی مرضی کا آرمی چیف تعینات کریں ، 85 سیٹوں والا مفرور کیسے آرمی چیف تعینات کرسکتا ہے ، نواز شریف اور آصف زرداری کی ترجیح میرٹ نہیں پیسہ بچانا ہے ، زرداری اور نواز شریف آرمی چیف کی تعینات کے لیے نااہل ہیں ، بار بار کہوں گا آرمی چیف کی تعیناتی میرٹ پر ہونی چاہیے۔

یہ بھی پڑھیے

چیف جسٹس نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے کردار کو جانبدارانہ قرار دے گیا

عمران خان کا کہنا تھا میں نے کہا کہ آرمی چیف کا عہدہ ایک اہم عہدہ ہوتا ہے اس پر میرٹ پر سلیکشن ہونی چاہیے۔ اگر میرٹ نہیں تو دوسروں ملکوں سے مقابلہ نہیں کرسکتے.

پاکستان ڈیفالٹ کرگیا تو اس کے اثرات برسوں محسوس کیے جائیں گے، جتنی دیر یہ موجودہ حکومت رہے گی ملک کمزور ہوتا چلے جائے گا، ملک اس وقت غیرمعمولی صورتحال کا سامنا کررہا ہے ، ہمیں سوچنا ہوگا کہ ملک کو دلدل سے نکالنے کے لیے کیا فیصلے کرنے ہیں ، ہم نے آئین میں رہتے ہوئے عوامی دباؤ ڈالنے کا فیصلہ کیا۔

چیئرمین تحریک انصاف کا کہنا تھا ضمنی انتخابات سے دو روز قبل ہی یہ لوگ الیکشن سے بھاگ گئے ، سوات میں ن لیگ کی سیٹ پر تمام پارٹیاں ملکر بھی ہار گئیں ، کراچی الیکشن میں پی ٹی آئی کو تین گنا زیادہ ووٹ ملے ، ضمنی انتخابات کے نتائج کے بعد ان کو عام انتخابات سے خوف آنے لگا ہے۔

سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ جن کے پیسے ملک سے باہر ہوں امریکی ان کی عزت نہیں کرتے۔ میری پارٹی کی امریکا سے تھوڑی ناراضگی ضرور ہے مگر ہم اینٹی امریکا نہیں ہیں۔ مجھے امریکا سے کوئی مسئلہ نہیں ہے، ہمارے امریکا کے ساتھ تعلقات اچھے ہونے چاہئیں۔ امریکا میں پاکستانی کمیونٹی بہت طاقتور ہے۔ امریکا کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں مگر پاکستان کو کسی کی جنگ میں نہ دھکیلا جائے۔ کیونکہ ہم دوستی چاہتے ہیں غلامی نہیں۔

ان کا کہنا تھا امریکا کے ساتھ تناؤ روس کا دورہ کرنے سے شروع ہوئی ، تاہم دوطرفہ تعلقات میں اونچ نیچ ہوتی رہتی ہے مگر مسائل حل ہوجاتے ہیں۔ امریکا سے تجارت ہو گی تو پاکستان کو فائدہ ہوگا۔ یورپی یونین سے میرے بڑے اچھے تعلقات تھے۔ بورس جانسن اور ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ بھی میرے بہت اچھے تعلقات تھے۔ امریکی دورے کے دوران ٹرمپ نے مجھے بہت زیادہ عزت دی۔ کسی ملک کے خلاف نہیں ہوں صرف پالیسی پر اعتراض کرتا ہوں ، یہ کہنا غلط ہے کہ میں اینٹی امریکا ہوں۔

توہین عدالت کیس سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا اگر مجھے عدالت میں بولنے کا موقع ملتا تو شائد ہو کہہ دیتا جو وہ چاہتے تھے۔ توہین عدالت کیس میں عدلیہ شائد اظہار افسوس سے زیادہ چاہتی تھی ، توہین عدالت معاملے پر افسوس کا اظہار اور الفاظ واپس لینا معافی مانگنے کا طریقہ ہے ، شہباز گل کو اغواء کرکے مار مار کے بھرکس نکال دیا گیا۔ شہباز گل سے کہا گیا کہ عمران خان کے خلاف بیان دو۔ عدلیہ کی کبھی توہین نہیں کرسکتا ، مگر مجھ پر دہشتگردی کا کیس بنوا دیا گیا۔

سابق وزیراعظم کا کہنا تھا توہین عدالت کیس میں اپنا جواب عدالت میں دوں گا.

وزیراعظم پر تنقید کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل سے عجیب وغریب باتیں کررہے تھے ، انتونیو گوتریس کو پتا ہے کہ شہباز شریف کا کتنا پیسہ باہر پڑا ہوا ہے ، شہباز شریف کی 60 فیصد کابینہ ضمانت پر ہے۔ شہباز شریف سے سوال ہے کہ لوگوں کی پکڑ دھکڑ کو کررہا ہے ، لوگوں کو گرفتار کرکے دھمکیاں دی جارہی ہیں۔

متعلقہ تحاریر