وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی عمران خان اور شریف برادران کے لیے مصیبت بن گئے
وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان اور مسلم لیگ ن کے سرکردہ قائدین نواز شریف اور شہباز شریف کے لیے مصیبت بن گئے۔
وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہیٰ نے پنجاب میں پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) کو تگنی کا ناچ نچوا دیا ، چوہدری پرویز الہیٰ نے کہا تھا کہ گورنر کے احکامات پر اعتماد کا ووٹ لینا غیرقانونی ہوگا۔
گذشتہ روز گوجرانوالہ یونیورسٹی کانووکیشن میں خطاب کرتے ہوئے چوہدری پرویز الہیٰ نے کہا تھا کہ شہباز شریف نے زندگی میں جتنے جھوٹ بولے ہیں لوگوں کی سوچ ہو گی۔ مسلم لیگ ن کی لیڈرشپ ڈالر ملک سے باہر لے جاتی ہے اور واپس لاتی ہے اسحاق ڈالر۔
یہ بھی پڑھیے
وزیرآباد واقعے کے پیچھے شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ کا ہاتھ ہے، عمران خان کا الزام
چیئرمین مہاجر قومی موومنٹ نے گورنر کامران ٹیسوری کی کوششوں پر پانی پھیر دیا
قومی سیاست میں اہم اہمیت حاصل کرنے کے بعد، پنجاب کے وزیراعلیٰ اور پاکستان مسلم لیگ قائد (پی ایم ایل-ق) کے رہنما پرویز الٰہی کے سامنے متعدد مرتبہ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) کو ہتھیار ڈالتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔
گزشتہ روز عمران خان نے اپنی رہائش گاہ زمان پارک میں وکلاء کے نمائندہ وفد سے ملاقات میں کہا تھا کہ پنجاب حکومت میں اتحاد میں ہونے کے باوجود پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ق) کے سربراہ پرویز الٰہی کا جنرل (ریٹائرڈ) قمر جاوید باجوہ کے حوالے سے موقف ایک جیسا نہیں ہے۔
عمران خان نے چوہدری پرویز الہیٰ کو وارننگ دیتے ہوئے کہا تھا کہ گیارہ جنوری سے پہلے اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ نہ لیا تو پی ٹی آئی اراکین اسمبلی مستعفی ہوجائیں گے۔
دوسری جانب پی ٹی آئی کے سینئر رہنما فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ اپنے ٹوئٹر پر اکاؤنٹ پر ٹوئٹ کرتے ہوئے بڑے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ "چوہدری پرویز الہیٰ پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے حق میں نہیں ہیں۔”
فواد حسین چوہدری نے مزید لکھا تھا کہ "عمران خان کے پاس اب بھی پنجاب اسمبلی کی قسمت کا فیصلہ کرنے کا اختیار ہے اور امید ظاہر کی کہ پرویز الٰہی اسمبلی کی تحلیل کے لیے عمران خان کی ہدایات پر عمل کریں گے۔”
دوسری جانب مسلم لیگ ن اور اس کے اتحادیوں کو بھی صوبائی اسمبلی میں کمزور پوزیشن کے باعث وزیراعلیٰ پنجاب کو ہٹانے یا ان کی حمایت حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ انہیں ہٹانے کی متعدد کوششوں کے باوجود مرکز میں برسراقتدار سیاسی جماعت کو ہر بار ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ گزشتہ روز وزیراعلیٰ پنجاب نے بھی اعتماد کا ووٹ لینے سے انکار کردیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ صوبائی اسمبلی میں مکمل نمبر ہونے کے بعد اس کی ضرورت نہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دونوں فریقین نے اب آنے والے دنوں میں اعتماد کے ووٹ کے لیے آستیں چڑھا لی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر وزیراعلیٰ پنجاب نے اعتماد کا ووٹ نہ لیا تو عدالت 11 جنوری کے بعد حکم جاری کر سکتی ہے۔