اعظم سواتی کو فراہمی انصاف کی آن لائن پٹیشن، عمران خان سمیت ہزاروں افراد کے دستخط
پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان سمیت 86 ہزار سے زائد افراد نے سینیٹر اعظم سواتی کو انصاف کی فراہمی کیلئے آن لائن پٹیشن پر دستخط کیے، عمران خان نے کہا کہ اعظم سواتی کو برہنہ کرکے تشدد کا نشانہ بنایا گیا ان کی تذلیل کی گئی مگر سپریم کورٹ سے انصاف نہیں ملا اور اس نے غم و غصے میں اپنا رد عمل ظاہر کیا تو اسے پھر جیل بھیج دیا گیا
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی ) کے سینیٹر اعظم سواتی کو انصاف کی فراہمی کیلئےایک آن لائن پٹیشن پر پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین سابق وزیراعظم عمران خان سمیت 86 ہزار سے زائد افراد نے دستخط کیے۔
پی ٹی آئی چیف نے ٹوئٹ میں کہاکہ میں نے اس پٹیشن پر دستخط کردئیے ہیں اورمیں چاہتا ہوں کہ وہ تمام لوگ جو اعظم سواتی سے متعلق پریشان ہیں۔ جو لوگ قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق کا خیال رکھتے ہیں وہ بھی اس پٹیشن پر دستخط کریں۔
یہ بھی پڑھیے
فوج کی اعلیٰ قیادت کے خلاف تندوتیز تقریر: ایف آئی اے نے ایک مرتبہ پھر اعظم سواتی کو گرفتار کرلیا
ایک ویب سائٹ "چینج ڈاٹ او آر جی " پر آن لائن پٹیشن امینہ کریم کی جانب سے شروع کی گئی تھی جس میں 150,000 افراد نے دستخط کیے کہ تحریک انصاف کے سینیٹر اعظم سواتی کی جان کو خطرہ ہے ۔
I have signed this petition; and I want all those who are appalled at what Azam Swati continues to go through & those who care about rule of law & human rights should also sign this petition. https://t.co/qNosD2Z8m6
— Imran Khan (@ImranKhanPTI) November 29, 2022
پی ٹی آئی کے سینیٹر اعظم سواتی کو افواج پاکستان کے سربراہ جنرل قمرجاوید باجوہ کے خلاف متنازعہ ٹوئٹ کرنے پر سائبر کرائمز قانون کے تحت 12 اکتوبر کو گرفتار کیا گیا تھا۔ دوران حراست برہنہ کرکے ان پر تشدد کیا گیا اور اس کی وڈیو بھی بنائی گئی تھی ۔
سینیٹراعظم سواتی کو5 نومبر کو ایک اور آزمائش کا سامنا کرنا پڑا جب کچھ سال قبل کچھ سال قبل کوئٹہ کے سرکاری گیسٹ ہاؤس میں قیام کے دوران ان کی اہلیہ کے ساتھ ان کے مباشرت کے لمحات کی خفیہ طور پر وڈیو ریکارڈ کی گئی۔
نازیبا ویڈیو انکی بیٹی کو بھیجی گئی جوکہ امریکی شہری ہے۔ انکے اہل خانہ کو بلیک میل کیا گیا اور دھمکی دی گئی کہ اگر سینیٹر سواتی نے پاکستان کے حالات کے خلاف آواز اٹھانا جاری رکھا تو ویڈیو لیک کردی جائے گی۔
اعظم سواتی نے پریس کانفرنس کرکے تمام تر واقعات منظر عام پر لائے جس کے بعد تحریک انصاف کے رہنماؤں نے سپریم کورٹ تک احتجاجی مارچ کیا اور چیف جسٹس پاکستان سے ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ بھی کیا ۔
یہ بھی پڑھیے
مجھے گولی مار دو ورنہ سب کو ننگا کردونگا، اعظم سواتی جذباتی ہوگئے
اعظم سواتی کی جانب سے ایک بار پھر سے متنازعہ ٹوئٹ کرنے پر انہیں 27 نومبر کو دوبارہ سائبرکرائمز ایکٹ کے تحت گرفتارکیا گیا۔ فواد چوہدری نے اعظم سواتی کو پولیس مقابلے میں ہلاک کرنے کا خدشات کا اظہار بھی کیا ۔
پی ٹی آئی کے میڈیا افیئرز کے سربراہ فواد چوہدری نے میڈیا سے بات چیت میں بتایا کہ سینیٹر سواتی کے بیٹے کو معتبر دھمکیاں موصول ہوئی ہیں کہ ان کے والد کو عدالت جاتے ہوئے پولیس مقابلے میں قتل کر دیا جائے گا۔
پی ٹی آئی کے چیئرمین اور پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان نے اعلیٰ عدلیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 14 (اور دیگر دفعات) کے تحت سینیٹر سواتی کے بنیادی حقوق کے تحفظ میں اپنا کردار ادا کرے۔
Article 14 of our Constitution refers to "Inviolability of dignity of man"; so my question to our Honourable SC Judges is whether this provision is only applicable to the powerful of the State & for everyone else there is no protection of their basic human dignity?
— Imran Khan (@ImranKhanPTI) November 28, 2022
انہوں نے کہا کہ ہم معزز چیف جسٹس پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ان واقعات اور سینیٹر سواتی کی جان کو لاحق خطرات کا از خود نوٹس لیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ سینیٹر سواتی کے بنیادی حقوق محفوظ ہیں۔
یہ یقینی بنایا جاسکے کہ قانون اور آئین کی خلاف ورزی کے ذمہ داروں کا محاسبہ کیا جائے گا۔ جنہوں نے منصوبہ بندی کی اورغلط استعمال کرنے کا حکم دیا وہ منظرعام پر لائے جائیں اور حساب کتاب کیا جائے۔
سربراہ تحریک انصاف نے اپنی ٹوئٹ میں کہاکہ آئین کا آرٹیکل 14 انسانی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے میں چیف جسٹس سےپوچھتا ہوں کہ کیا یہ شق طاقتوروں پر لاگو ہوتی ہے باقیوں کے بنیادی انسانی وقار کا کوئی تحفظ نہیں ہوتا؟
عمران خان نے کہا کہ سینیٹراعظم سواتی کو برہنہ کرکے تشدد کا نشانہ بنایا گیا ان کی تذلیل کی گئی۔ ان کی اہلیہ کو نازیبا وڈیو بھیجی گئی مگر سپریم کورٹ سے انصاف نہیں ملا اور وہ غصے میں ردعمل ظاہرکرتا ہے تو اسے جیل بھیج دیتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ میں ایک بار پھر اپنے معزز جج صاحبان سے پوچھتا ہوں کہ اس سب میں انصاف کہاں ہے؟ کیا آرٹیکل 14 کی آئینی شق صرف اعلیٰ اور طاقتور ریاستی عہدیداروں کے لیے منتخب طور پر لاگو کی جائے گی؟