سنچری میکر عثمان خواجہ ’بی جے پی کی تعصب کا شکار‘

ہندوستان کے خلاف چوتھے ٹیسٹ میچ کے پہلے دن عثمان خواجہ نے سنچری اسکور بنا ڈالی جس پر انتہا پسند ہندوؤں کی جانب سے انہیں سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

پاکستان نژاد آسٹریلوی بلے باز عثمان خواجہ کو ابتدائی طور پر ہندوستان نے ویزا دینے سے انکار کردیا تھا ، جس کا الزام آسٹریلیا کے سپورٹس رائٹرز اور ہندوستانی کرکٹ کے شائقین نے یکساں طور پر اس چیز کی ذمہ داری حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) پر عائد کی تھی۔

انڈیا کے معروف تاریخ دان رام چندر گوہا نے ہفتے کے روز کرن تھاپر کے ساتھ ایک انٹرویو اس بات کا انکشاف کیا کہ عثمان خواجہ نے احمد آباد میں پہلی اننگز میں شاندار سنچری اسکور کی ، یہ ایک غیرمعمولی موقع تھا جہاں جہاں ہندوستان اور آسٹریلیا کے وزرائے اعظم نے غیر معمولی طور پر ان کی کارکردگی کو سراہا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

سائمن ڈول کو حسن علی کی اہلیہ پر لاعلمی میں کیا گیا تبصرہ مہنگا پڑگیا

پی ایس ایل میں کھلاڑیوں کے ساتھ  ساتھ انکے والدین کا جذبہ بھی عروج پر

پروفیسر رام چندر گوہا تاریخ دان ہونے کے ساتھ ساتھ کرکٹ کے بھی معروف مورخ کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے سڈنی مارننگ ہیرالڈ میں میلکم کون کے تبصرے پر تبصرہ کرتے ہوئے اس وقت بھارتی حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا جب حکومت نے عثمان خواجہ کو ویزا دینے سے انکار کردیا تھا۔

میلکم کون لکھتا ہے کہ’’ مسلم کھلاڑیوں کے حوالے سے بھارتی حکومت کے تعصبانہ رویے کے خلاف سپورٹس رائٹرز کو ضرور قلم اٹھانا چاہیے اور موجودہ نظام کی خامیوں کو ظاہر کرنا چاہیے۔‘‘

آسٹریلوی مصنف میلکم کون نے پاکستانی کھلاڑیوں کے ساتھ بھی ‘بد سلوکی’ پر ہندوستانی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

سڈنی مارننگ ہیرالڈ کے معروف رائٹر میکلم کون لکھتے ہیں کہ ہندوستان اور آسٹریلیا کے درمیان چوتھے ٹیسٹ میچ کے پہلے دن عثمان خواجہ نے شاندار سنچری اسکور کی مگر ستم ظریفی یہ کسی نے بھی بھرپور انداز میں ان کی کارکردگی کو نہیں سراہا۔ میچ سے قبل وزیر اعظم نریندر مودی اور آسٹریلوی ہم منصب اسٹیڈیم کے ارد گرد اچھی کوریوگرافی رتھ کی سواری کے ساتھ داخل ہوئے۔

پروفیسر رام چندر گوہا لکھتے ہیں کہ ہندوستانیوں کا عثمان خواجہ کے ساتھ سلوک”بدتمیزی اور نفرت انگیز تھا ، جو ہندوستانیوں کی کم ظرفی کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ رویہ ہمیں "یہ ہمیں شرمندہ کرتا ہے … اور ہمیں اپنی ہی نظروں میں نیچے گرا دیتا ہے۔”

میلکم کون  لکھتے ہیں کہ "میچ کے پہلے دو دن عثمان خواجہ سے شاندار پرفارمنس دیں اور سنچری اسکور کی ، جبکہ انڈیا کی جانب سے محمد شامی نے آؤٹ ہونے والے چار کھلاڑیوں میں سے دو کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ افسوس کی بات ہے کہ عثمان خواجہ اور محمد شامی دونوں ہی کو ہندوستانی قوم پرست ہندو اپنے تعصب کا نشانہ بناتے ہیں۔”

میلکم کون لکھتے ہیں کہ بی جی پی کی ہندو قوم پرست” حکومت "عثمان خواجہ کو آسٹریلیا کے بہترین کرکٹرز طور پر کم اور پاکستان میں پیدا ہونے والے ایک مسلمان کے طور پر زیادہ دیکھتی ہے”۔

یاد رہے کہ عثمان خواجہ کو ابتدا میں ہندوستانی حکومت نے ویزا دینے سے انکار کر دیا تھا جس کی وجہ سے ہو یکم فروری کو آسٹریلوی کرکٹ ٹیم کے ساتھ سفر نہیں کر سکے تھے۔ تاہم بعد میں آسٹریلوی کرکٹ انتظامیہ کی مداخلت پر عثمان خواجہ کو ویزا جاری کیا گیا تھا۔

میلکم کون نہ صرف عثمان خواجہ کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں بلکہ محمد شامی کے ساتھ بھی بھرپور یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں، جنہیں ہندوستان میں وقتاً فوقتاً دائیں بازو کے ٹرولز نے نشانہ بنایا ہے۔ وہ یاد کرتے ہیں کہ کس طرح 18 ماہ قبل T-20 ورلڈ کپ کے فائنل میں پاکستان کے خلاف ہندوستان کی شکست پر شامی کو نشانہ بنایا گیا تھا، اور کپتان ویرات کوہلی ان کی حمایت میں بھرپور طریقے سے سامنے آئے تھے۔

متعلقہ تحاریر