لاہور قلندرز کا ٹائٹل اور دل جیتنے تک کا فن

رانا برادران - عاطف اور سمین نے کیسے اپنے دل کی سنی اور اپنی فرنچائز کی قسمت کا رخ بدلا۔

پاکستان سپر لیگ سیزن 8 کی آفیشل ایوارڈ کی تقریب کے چند گھنٹے بعد تک ، گزشتہ ہفتے پاکستان سپر لیگ کی چیمپئن لاہور قلندرز پر تحائف کی بارش ہوتی رہی۔ لاہور قلندرز ٹائٹل کا بہترین انداز میں دفاع کیا تھا ، ایسا کارنامہ جو پہلے کبھی حاصل نہیں کیا گیا تھا، لاہور قلندرز کے مالکان عظمت کا نیا معیار قائم کر کے دکھایا تھا۔ پورے اسکواڈ میں نقد بونس، آئی فونز اور پلاٹوں کی تقسیم کی گئی۔ ایسی مراعات کسی بھی ٹی ٹوئنٹی لیگ جیتنے والی ٹیم کو حاصل نہیں ہوئی۔ یہاں تک کہ بلین ڈالر کا ٹرینڈ اسیٹنگ ٹورنامنٹ – انڈین پریمیئر لیگ کے پلیئرز کو بھی نہیں ملے۔

تمام کھلاڑیوں کو ان کی پرفارمنس کے تناسب سے نوازا گیا۔ کپتان اور پی ایس ایل 23 کے فائنل کے مین آف دی میچ شاہین آفریدی، سیزن کے سب سے زیادہ رنز بنانے والے اور وکٹ لینے والے فخر زمان اور راشد خان لاہور قلندرز کے نئے کھلاڑی تھے۔ ٹیم کے مالکان نے لاہور میں ایک رہائشی منصوبہ قلندر سٹی جو کہ تین کنال "تقریباً 1,500 مربع میٹر” پر پھیلا ہوا ‘آفریدی’ کے نام سے منصوب کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

قومی کرکٹر بابر اعظم کو بھارتی تعلیمی نصاب میں شامل کرلیا گیا

رانا برادران عاطف اور سمین لاہور قلندرز کے بڑے دل کے مالک ہیں۔ ان کی ٹیم کے دوبارہ ٹرافی جیتنے کے چند دنوں کے اندر، سمین کینیڈا کے شہر وینکوور میں واپس آ گئے ہیں، جہاں وہ اپنے خاندان کے ساتھ رہتے ہیں۔

یہ سب اس خاندان کی طرح تھا ، جن کا بچہ یا بھائی اپنے کلاس میں ٹاپ کرتا ہے تو اس سب اسے تحائف سے نوازتے ہیں ، اس کو گھڑی دیتے ہیں یا فون دیتے تو اسے اپنی کامیابی کا زیادہ احساس ہوتا ہے۔

سمین کا کہنا ہے کہ آئی فون اور پلاٹ تحائف غیر روایتی لیکن ایک جذباتی سوچ کے مظاہر ہیں۔ ہماری ٹیم ہمارے جذبات سے آگاہ ہے۔

قلندرز کی سوشل میڈیا ٹیم کی جانب سے جاری کی گئی ویڈیوز میں سمین کے الفاظ کو بصری شکل دی گئی ہے۔ سپر اسٹارز  شاہین آفریدی ، راشد خان اور فخر زمان کے چہروں کو چمکتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

لاہور میں زمین کا مالک ہونا بہت بڑی بات ہے ، کیونکہ لاہور میں زمین زیادہ تر اشرافیہ کے پاس ہوتی ہے۔ ٹیم کا مالش کرنے والا ملنگ، اپنے جوش کو قابو میں رکھنے سے قاصر رہا، مارشل آرٹ کی طرح اچھل کود کرتا دکھائی دے رہا تھا۔ ڈریسنگ روم میں پنجابی گانوں پر بھنگڑے ڈالے گئے۔

فرنچائز کے مالکان نے مختلف ترقی پاتی ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے خوش مزاج مردوں کا ایک گروپ اکٹھا کیا۔ اس متوازن چیمپئن ٹیم کو بنانے میں وقت اور محنت درکار تھی۔  ان لڑکوں نے برے دن دیکھے تھے۔ پہلے چھ پی ایس ایل میں سے پانچ میں، وہ گروپ مرحلے سے بھی گزر نہیں پائے تھے۔ لاہور کے شائقین سفاک انداز میں مطالبہ کیا کہ کوچ عاقب جاوید کو برطرف کیا جائے۔

فرنچائز کے مالکان کو بھی نہیں بخشا گیا۔ انہیں مسفٹ کہا جاتا تھا۔ سمین ایک چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہیں ، جن کا 25 سالہ طویل بطور ‘اکاؤنٹنٹ ٹو CFO’ تجربہ ہے۔ پیشہ ورانہ رائل ڈچ شیل، عمان آئل کمپنی اور جنرل الیکٹرک جیسی اعلیٰ ملٹی نیشنلز سے منسلک ہیں۔

کینیڈا میں اپنے اڈے سے پاکستان واپس آنے کے بعد، ان کے بڑے بھائی عاطف، جو کہ لبریکینٹس کا کاروبار کرنے والے ایک امیر تاجر ہیں ، نے PSL فرنچائز خریدی۔ سمین نے بطور ٹیم مینیجر فرنچائز کو جوائن کیا۔ ان کے خاندان سمیت سب نے انہیں تباہ کن آغاز کا ذمہ دار ٹھہرایا۔

تاہم سمین کا کہنا تھا کہ “میں کھلاڑیوں پر یقین کروں گا، انہیں سپورٹ کروں گا، ان سے پیار کروں گا اور ان سے ان کی صلاحیتوں کے مطابق کام کرنے کی توقع کروں گا۔ پاکستان میں کرکٹرز کو اس طرح سنبھالا نہیں جا سکتا تھا، مجھے بتایا گیا تھا۔‘‘ وہ دوست یا بھائی بننے کی کوشش کر رہا تھا۔ نتائج نہ آنے پر اس نے اپنے کام کے انداز کو تبدیل کرنے کی کوشش کی لیکن یہ کام بھی نہیں ہوا۔

پی ایس ایل سیزن 4 کے شروع ہونے سے کچھ عرصہ پہلے سمین نے خود کو عامر خان کی 1990 کی دہائی میں آنے والی بلاک بسٹر فلم رنگیلا سے موٹیویشن لی۔

سمین کے اپنے الفاظ ہیں جو لوگ دنیا میں جینے کے انداز کو نہیں جانتے وہ ہمیشہ اپنے ماتھے پر ہاتھ مارتے رہتے ہیں اور چاند تاروں کی تلاش میں کھوئے رہتے ہیں۔ فلسفیانہ انداز میں گفتگو کرتے ہوئے سمین کا کہنا تھا کہ جو لوگ زندگی کے صحیح راستے کی تلاش میں ادھر ادھر دیکھنے میں اپنا وقت ضائع نہیں کرتے وہی کامیاب ہوتے ہیں۔

قلندرز کی کامیابی کی کہانی ٹی 20 کے جنگل میں ٹائٹل کی تلاش میں فرنچائزز کے لیے ایک کیس اسٹڈی ہو سکتی ہے۔ لاہور فرنچائز کے مالکان نے سوچا کہ بےصبری اور قلیل مدتی اہداف کے ساتھ راتوں رات کامیابی حاصل نہیں کی جاسکتی۔ اس کے لیے انہوں نے غیر معمولی سرمایہ کاری کی، تسلسل کے ساتھ ہم خیال کھلاڑیوں کو منتخب کیا ، اور ٹیم کے ساتھ خاندان کے افراد جیسا سلوک کیا۔

یہی وہ فلسفہ تھا جس کے ساتھ شرمیلی طبیعت کے کم عمر  کھلاڑی شاہین شاہ آفریدی نے ٹیم قلندرز کو دوسری مرتبہ پی ایس ایل کا ٹائٹل جیتنے والی ٹیم بنا دیا۔ لاہور فرنچائز کے ورلڈ کلاس اوپنر فخر زمان (میرپور ضلع کے دور دراز علاقے چکسواری) نے قومی ٹیم تک کا سفر طے کیا۔ زمان خان، دو سال پہلے تک، ٹین کی چھت کی مٹی کے شیڈ میں رہتے تھے۔ پی ایس ایل سیزن 8 میں وہ قلندرز کے آخری اوور کے ہیرو تھے۔ فرنچائز کے مالکان نے انہیں لاہور میں پلاٹ سے جبکہ پی سی بی نے قومی ٹیم کی کیپ سے نوازا۔ اس سال قلندرز ٹیلنٹ فیکٹری نے پاکستانی ٹیم کو فخر زمان اور عبداللہ شفیق کی شکل میں دو بہترین کھلاڑی دیئے ہیں۔

اب بات کرتےہیں لاہور قلندرز کے حارث رؤف کی ، جو فرنچائز کے روشن ستارے کی مانند ہیں۔انہوں نے ترقی کی منازل بہت جلد طے کی ہیں۔ پاکستان بھر سے آئے ہوئے ایک لاکھ امیدواروں کو شکست دے کرے حارث رؤف ٹیم کا حصہ بنے۔ اس سے قبل تیز گیند باز سڑکوں پر کھیلتے ہوئے دکھائی دیتے تھے۔ عاقب جاوید نے اسے دیکھا اور اسے 150 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے دنیا کے بہترین گیند باز میں ڈھال دیا۔

قلندرز کا ٹرن اراؤنڈ دلچسپ تھا۔ سمین کی ٹیم کا ایک سادہ نعرہ ہے۔ میں ہوں قلندر (میں ہوں قلندر)۔ سیزن فور کے اختتام کے بعد سمین ٹیم کا نعرہ تبدیل کردیا اور اس طرح ٹیم کا تازہ ترین نعرہ بنا۔ میں ہوں قلندر، دل سے۔

تاہم سیزن فائیو میں ٹیم نے کچھ بہتر کارکردگی دکھائی۔ ویز کے شاندار بلے بازی کی بدولت ٹیم سیمی فائنل سے فائنل تک پہنچی۔ ویز نے آخری اوور میں 27 رنز بنائے اور دوسری اننگز میں چھ گیندوں پر آٹھ رنز کا دفاع کرتے ہوئے قلندرز کو گزشتہ سال فائنل تک پہنچایا۔ اس سال بھی انہوں نے فائنل میں دو اہم کیچ پکڑے۔ ان کوششوں سے انہیں لاہور میں چند کنال زمین مل گئی۔

سمین اپنے نو بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا ہےاور اپنی ماں کا سب سے لاڈلہ ہے۔ سمین نے سیالکوٹ میں اپنا بچپن بہت گزارا تھا۔ ان کے والد ایک ڈسپنسر تھے، اور والدہ گھریلو خاتون تھیں۔ خاندان کا معمولی بجٹ تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کے راستے میں حائل نہیں ہوا۔ خاندان میں ڈاکٹر، انجینئر اور ایک CA ہے۔ والد کی وفات کے بعد ان کی والدہ کوثر نے بچوں کی پرورش کی۔

عاطف اور سمین دونوں اپنی والدہ کی یاد میں فرنچائز کا نام رکھنے کے خواہشمند تھے۔

سمین کا بتانا ہے کہ ہم نے سب سے پہلے ٹیم کا نام لاہور ماں اور لاہور کوثر رکھنے کی کوشش کی مگر وہ ہمیں ٹھیک نہیں لگ رہا تھا۔ پھر ہم انٹرنیٹ پر پول کرایا تو "لاہور قلندرز”کی تجویز سامنے آئی۔ میری والدہ بھی ایک قلندر تھیں۔ اب وہ صرف نام ہی نہیں روح میں بھی قلندر بننا چاہتے تھے۔

عاطف کا کہنا ہے کہ اس نام میں ہی ان کی ٹیم کی جدوجہد اور کامیابیاں پوشیدہ ہیں۔ لہذا ہم اس وقت تک جیت نہیں پائے جب تک کہ ہمارے کھلاڑی کی ترقی سامنے نہ  آئے۔ ہم جیت گئے جب شاہین لیڈر بنے، حارث ہیرو بنے اور زمان چکسواری سے ٹیم میں اپنا وزن بڑھانے کے لیے آئے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

سمین کا کہنا ہے کہ قلندر بننا آسان نہیں ہے۔ تم قلندرز ہو دل سے۔

متعلقہ تحاریر