ٹوکیو اولمپکس میں خواتین ایتھلیٹس کی تعداد زیادہ کیوں؟

امریکا، چین، آسٹریلیا، کینیڈا اور برطانیہ نے خواتین ایتھلیٹس کی تعداد بڑھا کر تاریخ رقم کردی ہے۔

جاپان میں 23 جولائی سے شروع ہونے والے ٹوکیو اولمپکس میں صنفی مساوات کی ایک مثال قائم ہوگئی ہے۔ اہم ممالک نے مرد ایتھلیٹس کے مقابلے خواتین ایتھلیٹس کی زیادہ تعداد کو اپنے ملک کی نمائندگی کے لیے بھیجا ہے۔

اولمپکس میں عام طور پر خواتین ایتھلیٹس کے مقابلے میں مرد ایتھلیٹس کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ لیکن، اس مرتبہ مختلف ممالک نے خواتین ایتھلیٹس کی تعداد بڑھا دی ہے۔ خبر رساں اداروں کے مطابق ٹوکیو اولمپکس میں 5 اہم ممالک برطانیہ، چین، امریکا، آسٹریلیا اور کینیڈا نے مردوں کے بجائے خواتین ایتھلیٹس کو ترجیح دی ہے۔ ان ممالک کی خواتین بڑی تعداد میں اپنے ملک کی نمائندگی کررہی ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق چین کے 431 ایتھلیٹس میں 298 خواتین اور 133 مرد ایتھلیٹس شامل ہیں۔ اسی طرح امریکا کے ایتھلیٹس کی تعداد 613 ہے۔ جس میں 329 خواتین اور 284 مرد مختلف کھیلوں میں حصہ لے رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

ٹوکیو اولمپکس میں ایتھلیٹس کو کرونا سے متعلق ہدایات جاری

برطانیہ کے 376 ایتھلیٹس مختلف کھیلوں میں حصہ لے رہے ہیں جس میں 201 خواتین ایتھلیٹس شامل ہیں۔ کینیڈا کے 370 ایتھلیٹس میں سے 225 خواتین اور 145 مرد شامل ہیں جبکہ آسٹریلیا نے اپنے 471 ایتھلیٹس ٹوکیو بھیجے ہیں، جس میں 252 خواتین اور 219 مرد ایتھلیٹس شامل ہیں۔

خبر رساں اداروں کا کہنا ہے کہ امریکا، چین، آسٹریلیا، کینیڈا اور برطانیہ نے پہلی مرتبہ خواتین ایتھلیٹس کی تعداد بڑھا کر تاریخ رقم کردی ہے۔ دوسری جانب پابندیوں کے باوجود روس نے مرد ایتھلیٹس پر خواتین کھلاڑیوں کو ترجیح دی ہے۔

واضح رہے کہ خواتین کے عالمی دن کے موقع پر عالمی اولمپکس کمیٹی نے اعلان کیا تھا کہ ٹوکیو اولمپکس میں پہلی مرتبہ تمام کھیل صنفی مساوات کے مطابق ہوں گے۔ کمیٹی نے اعلان کیا تھا کہ 49 فیصد خواتین اور51 فیصد مرد ایتھلیٹس مختلف گیمز میں حصہ لیں گے۔

ٹوکیو اولمپکس کے منتظمین کا کہنا ہے کہ انہوں نے کھیلوں کے ذریعے دنیا بھر میں صنفی مساوات کا پیغام دیا ہے، کھیلوں میں خواتین کو برابری کی سطح پر مواقعے فراہم کرکے اس محرومی کو ختم کیا جاسکتا ہے۔

متعلقہ تحاریر