فلسطینی پرچم فیفا ورلڈکپ میں سب سے زیادہ لہرایا جانے والا جھنڈا بن گیا

اسٹیڈیمز میں فلسطینی جھنڈوں کو دیکھ اور ’آزاد فلسطین‘ کے نعرے سن کر کوئی یہ سوچ سکتا ہے کہ فلسطین نے ورلڈ کپ میں حصہ لیا ہے۔لاطینی امریکی میڈیا نے فلسطین کو ورلڈکپ میں شریک ’33 واں ملک‘ قرار دیدیا، الجزیرہ

قطر میں جاری فیفا ورلڈکپ کے دوران سب سے زیادہ لہرائے جانے کا اعزاز فلسطینی پرچم نے حاصل کرلیا۔

فیفا ورلڈ کپ  کے فائنل سے پہلے ہی ایک فاتح ابھر کر سامنے آگیا ہےاور وہ ہے! فلسطین۔ جو  دنیا بھر کے شائقین کے دلوں اور دماغوں  میں جگہ بنار  ہاہے۔

یہ بھی پڑھیے

مراکش فٹبال ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں ، رونالڈو ہمیشہ کے لیے ورلڈ کپ سے باہر

مراکش فٹ بال ٹیم کےاسٹار اشرف حکیمی نے ماضی کی محرومیاں آشکار کردیں

 

الجزیرہ کے مطابق فلسطینی جھنڈوں ، بازو بندوں اور کنگنوں کو دیکھ کر اور اسٹیڈیمز، فین زونز، گلیوں اور سوشل میڈیا پر’آزاد فلسطین‘ کے نعرے سن کر، کوئی یہ سوچ سکتا ہے کہ فلسطین ان 32 ممالک میں شامل ہے جن کے اس ورلڈ کپ میں ٹیموں نے حصہ لیا ہے۔ درحقیقت، کچھ لاطینی امریکی میڈیا آؤٹ لیٹس نے اسے ٹورنامنٹ میں’33 واں ملک‘ قرار دیا ہے۔

لیکن فلسطین کی قومی ٹیم نہیں کھیل رہی تو فلسطین اس قدر ہر جگہ موجود کیوں ہے؟

اس کی وجہ یہ ہے کہ ورلڈ کپ کھیلوں کے ایونٹ سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ دنیا بھر سے لوگوں کا ایک بہت بڑا اجتماع ہے جو فٹ بال کے لیے اپنے جنون کو بانٹنے ، تنوع اور انسانی یکجہتی کا جشن منانے کے لیے اکٹھا ہو رہا ہے۔

اس سال کا ورلڈ کپ کسی عرب ملک میں منعقد ہونے والا پہلا ایڈیشن ہے۔ لہٰذا، یہ کسی بھی پچھلے ورلڈ کپ کے مقابلے میں   جغرافیائی، منطقی اور ثقافتی طور پر  خطے کے لوگوں کے لیے زیادہ قابل رسائی رہا ہے۔ اس نے علاقے کے لوگوں کو جبر کے معمول کے خوف کے بغیر بڑی تعداد میں جمع ہونے کی جگہ بھی دی ہے۔

نتیجتاً فلسطین نے خود بخود مرکز کا درجہ حاصل کر لیا ہے، عربوں کو خوشی اور جشن کے ماحول میں متحد کیا ہے اور فلسطینی کاز کے ساتھ اپنے عزم کا اعادہ کیا ہے۔عرب  اپنی آواز دنیا تک پہنچانے کے اس  سنہری موقع کو فلسطین کی جدوجہد آزادی کی حمایت  کے لیے استعمال کررہے ہیں۔یہ سنہری موقع   نہ صرف فلسطین پر مسلسل قبضے کے خلاف بلکہ جابر عرب حکومتوں کے نو نوآبادیاتی نظام کے خلاف بھی مزاحمت کی علامت ہے۔

 یہ ایک دہائی سے زیادہ پہلے کے انقلابات کے دوران طاقتور لمحات کی یادیں لاتا ہے جب عربوں نے بھی فلسطینی پرچم لہرایا اور آزادی اور وقار کے اپنے مطالبات کے ساتھ ساتھ آزاد فلسطین کا نعرہ لگایا۔

پری کوارٹرفائنل میں اسپین اور کوارٹرفائنل میں پرتگال کو شکست دینے کےبعد سیمی فائنل میں جگہ بنانے والی پہلی عرب ٹیم مراکش کے کھلاڑی بھی اپنی جیت کا جشن منانے کے دوران فلسطین سے یکجہتی کااظہار کرنا نہیں  بھولے اور فلسطینی پرچم کے ساتھ گروپ فوٹوبنوائی۔

امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق   کوارٹرفائنل میں مراکش کی فتح کے بعد مراکشی پرستار عبداللہ منصوری نے کہاکہ”فلسطین ورلڈ کپ میں 33 واں ملک ہے،فلسطین ہمارا مقصد ہے، عرب دنیا میں، تمام عرب دنیا میں ہماری جدوجہد ہے“۔

مراکش کی جرسی میں ملبوس اور  ہاتھ میں فلسطینی پرچم اٹھائےاپنے شوہر محمد بوہرید کے ساتھ  ایجوکیشن سٹی اسٹیڈیم سے باہرنکلنے والی پرستار عائشہ حجاج نے کہا کہ ”فلسطین ہمارا دوسرا ملک ہے، ہمارا عنوان ہے،مسلمان اور انسان ہونے کی طرح فلسطین ہ ہماری شناخت ہے،وہ تکلیف میں ہیں“  ۔

متعلقہ تحاریر