کیا ٹیلی گرام کا دور پھر آنے والا ہے؟

ٹیلی گرام کے فیچرز واٹس ایپ سے میل کھاتے ہیں جبکہ صارف کا کسی سخت پالیسی پر رضامند ہونا بھی لازمی نہیں ہے۔

واٹس ایپ کی نئی پالیسی سے پریشان صارفین متبادل ایپ تلاش کررہے ہیں۔ ایسے میں ٹیلی گرام ایپ لوگوں کی توجہ حاصل کررہی ہے۔

پچھلے دنوں واٹس ایپ نے اپنی نئی پالیسی متعارف کرائی جس کے مطابق ایپ نہ صرف صارفین کا ڈیٹا استعمال کرسکے گی بلکہ اسے فیس بک کے ساتھ شیئر کرنے کا حق بھی ہوگا۔ صارف کا نام، تصویر، موبائل نمبر، فون ماڈل، آئی پی ایڈریس، آپریٹنگ سسٹم کی معلومات، یہاں تک کہ صارف کی لوکیشن بھی واٹس ایپ فیس بک کو مہیہ کرے گا۔ واٹس ایپ نے پالیسی کو قبول کرنے کے لیے 8 فروری کی ڈیڈ لائن دی ہے جس کے بعد صارفین کے اکاؤنٹ بند کردیئے جائیں گے۔

اس پالیسی سے ناراض صارفین ٹیلی گرام کی جانب قدم بڑھا رہے ہیں۔ ٹیلی گرام پیغامات، تصاویر اور ویڈیوز ایک دوسرے سے شیئر کرنے کے لیے بنائی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

سال 2020 کے اختتام پر ایپل کا شاندار بزنس

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ٹیلی گرافی 18 ویں صدی میں منظر عام پر آنے والے پیغامات بھیجنے کا پہلا الیکٹرانک طریقہ تھا۔ الیکٹرانک پیغامات کی ترسیل کے لیے استعمال ہونے والی ڈیوائس کو ٹیلی گراف جبکہ پیغامات کو ‘ٹیلی گرام’ کہا جاتا تھا۔ زمانہ بدل چکا ہے اب ٹیلی گرام ‘ایپ’ کی صورت میں ایک مرتبہ پھر ہمارے سامنے آگئی۔

  ایپ نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ‘واٹس ایپ’ کے نئے قوانین پر مزاحیہ انداز میں طنز کرتے ہوئے پوسٹ شیئر کی جسے لوگوں نے بہت سراہا۔

صارفین کے خدشات کے پیش نظر یہ کہا جارہا ہے کہ ٹیلی گرام ممکنہ طور پر واٹس ایپ کی جگہ لے سکتی ہے کیونکہ اس کے فیچز بڑی حد تک واٹس ایپ سے میل کھاتے ہیں۔ جبکہ کسی سخت پالیسی پر رضامندی ظاہر کرنا بھی لازمی نہیں ہے۔

متعلقہ تحاریر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے