زمین کے قریب ایک اور قابل رہائش سیارے کی موجودگی کاامکان

زمین کے قریب صرف 4 نوری سال کی دوری پر ایک اور  قابل رہائش سیارے کی موجودگی کے امکانات روشن ہوگئے۔

ماہرین فلکیات نے زمین کے سورج کے قریب ترین  25 ٹریلین میل (40.2 ٹریلین کلومیٹر)  کی دوری پر واقع کہکشاں پروکسیما  کےایک ستارے کے  گرد ایک تیسرے سیارے کے چکر لگانے کے شواہد کا کھوج  لگایا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

آئندہ دس سالوں میں انسانوں کومریخ تک پہنچائیں گے، ایلون مسک کا اعلان

چین نے بجلی پیدا کرنے کیلیے مصنوعی سورج بنا لیا

روشنی ،خلا میں ایک سال کے دوران  جتنا فاصلہ طے کرتی ہے اسے ایک نوری سال کہا جاتا ہے جو تقریباً 5.88 ٹریلین میل (9.46 ٹریلین کلومیٹر) کے برابر ہے۔

جمعرات کو ایسٹرانومی اور ایسٹرو فزکس نامی جریدے میں شائع ہونے والی تفصیلات کے مطابق زمین کے تقریباً ایک چوتھائی رقبے کے برابر چٹانی شے اب تک پائے جانے والے سب سے ہلکے سیاروں میں سے ایک ہے۔چھوٹے اورمدھم سرخ ستارے میں سورج کی حجم کا صرف آٹھواں حصہ ہے اور یہ پہلے سے ہی زمینی سائز کے سیارے کا گھر ہے۔

نئے دریافت شدہ سیارے کو پراکسیما ڈی  کا نام دیا گیا ہے جو ہر 5زمینی دن کے میں اپنے ستارے کے گرد ایک چکر مکمل کرتا ہے اور ستارے سے صرف ڈھائی ملین میل یا 4 ملین کلومیٹر کے فاصلے پر موجو دہے، جو ہمارے نظام شمسی میں عطارد(مرکری) اور سورج کے درمیانی فاصلے کے دسویں حصے سے بھی کم ہے۔واضح رہے کہ عطارد سورج کے گرد ایک چکر 88دنوں میں مکمل کرتا ہے۔

مذکورہ  سسٹم میں پائے جانے والے پہلے سیارے پراکسیما بی کی تصدیق 2020 میں ہوئی تھی ۔ یہ سیارہ زمین کے حجم کے برابر ہے اور ہر 11 دن بعد ستارے کے گرد چکر لگاتا ہےاور قابل رہائش حصے میں موجود ہے ۔ اور  اپنے ستارے سے اس  فاصلے پرواقع ہے  جہاں پانی کے لیے حالات سازگار ہیں   اور جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ کسی بھی سیارے پر زندہ رہنے کیلیے  پانی سب سے بنیادی عنصر ہے۔

قریبی ستاروں کی بات کی جائے  تو پراکسیما ڈی  اس ستارے کے بہت قریب ہے جوقابل رہائش زون میں واقع ہے  جبکہ تیسرا سیارہ پراکسیما سی اپنے ستارے بہت دور ہے اور ایک چکرسال میں مکمل کرتا ہے ۔

پرتگال میں انسٹی ٹیوٹ آف ایسٹرو فزکس اینڈ اسپیس سائنسز کے ایک محقق جواؤ فاریا نے ایک بیان میں کہا کہ دریافت سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارا قریب ترین پڑوسی نئی دلچسپ دنیاؤں سے بھرا ہوا  ہے جن تک پہنچنے کیلیے مزید مطالعے اور تلاش جاری رکھنے کی ضرور ہے۔

ماہرین فلکیات نے چلی میں واقع یورپی سدرن رصدگاہ کی بہت بڑی دوربین کا استعمال کرتے ہوئے پرایکسیما ڈی کا کھوج لگایا ۔رصدگاہ کی دوربینوں اور آلات کا استعمال پراکسیما سینٹوری نظام میں ماضی کی سیاروں کی دریافتوں کو تلاش کرنے اور ان کی تصدیق کے لیے کیا گیا تھا۔نظام کے حالیہ فالو اپ مشاہدات کے دوران، ماہرین فلکیات نے ستارے کے گرد ایک تیز مدار کے ساتھ کسی چیز سے کمزور سگنل کا پتہ لگایا۔

جس کے بعد ایکسپریسو نامی بہت بڑے ٹیلی اسکو پ کی مدد سے انتہائی حساس Echelle Spectrograph کا استعمال کرتے ہوئے مزید مشاہدات کیے گئے ۔ان مشاہدات سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ممکنہ طور پر ا س نظام میں ایک سیارہ موجود ہے  جس کی کشش ثقل ستارے میں تبدیلیوں کے بجائے ستارے کو کھینچ رہی ہے۔

جواؤ فاریہ نے  مزید کہا کہ نئے مشاہدات کے نتیجے  میں ہم اس سگنل کی  نئے سیارے کے امیدوار کے طور پر تصدیق کرنے میں کامیاب ہوگئے۔انہوں نے بتایا کہ  میں اتنے چھوٹے سگنل کا کھوج لگانے  پر خاصا پرجوش تھا کہ ہم زمین کے اتنے قریب ایک قابل رہائش سیارے کی دریافت میںکامیاب ہوگئے ہیں ۔

ممکنہ سیارے کےآئندہ کے مشاہدات اس بات کی تصدیق کر سکیں  گے کہ پراکسیما ڈی  واقعی اس ستارے کے گرد چکر لگانے والی تیسری دنیا ہے۔

کہکشاں پراکسیما کے اطراف سیارے کی کھوج  بالواسطہ شعاعی رفتار((radial velocity کے طریقہ کار کو استعمال  کرکے لگائی گئی  اور  یہ پہلا موقع ہے جب اتنے ہلکے وزن والے سیارے کو تلاش کرنے کے لیے ریڈیل ویلوسٹی کا طریقہ استعمال کیا گیا ہے۔

ایکسپریوٹیلی اسکوپ  کے سائنسدان پیڈرو فیگیرا نے ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ کامیابی انتہائی اہم ہے،یہ دریافت ظاہر کرتی ہے کہ ریڈیل ولاسٹی کی تکنیک میں روشنی کے حامل سیاروں سے پردہ اٹھانے کی صلاحیت موجود ہے، جیسا کہ امید کی جاتی ہے کہ ہماری اپنی کہکشاں میں ایسے سب سے زیادہ سیارے موجود ہوسکتے ہیں جہاں زندگی گزاری جاسکتی ہے۔

محققین کا خیال ہے کہ مستقبل کے مشاہدات  سے مزید تفصیلات سامنے آسکتی ہیں اور نظام میں موجود اضافے سیارے بھی دریافت کیے جاسکتے ہیں ۔فاریہ نے کہا کہ یہ نتیجہ واضح طور پر ظاہر کرتا ہے کہ ٹیلی اسکوپ ایکسپریسو کیا کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور مستقبل میں کیا کچھ تلاش کر سکتی ہے۔

متعلقہ تحاریر