عمران ریاض کیس میں سپریم کورٹ کے احکام کی صریحاً خلاف ورزی کاانکشاف

سپریم کورٹ 1992 میں صفیہ بی بی کیس میں قرار دے چکی کہ متعدد مقدمات میں نامزد ملزم کی کسی ایک  مقدمے میں گرفتاری تمام مقدمات میں گرفتاری تصور ہوگی اور ایک مقدمے میں  ضمانت تمام مقدمات میں تصور ہوگی

پنجاب پولیس کی جانب سے صحافی عمران ریاض کے معاملے میں سپریم کورٹ کے احکام کی صریحاً خلاف ورزی کا انکشاف ہوا ہے۔

سپریم کورٹ نے 1992 میں صفیہ بی بی کیس  میں قرار دیا تھا کہ کسی ملزم پر متعدد مقدمات درج ہوں  اور وہ کسی ایک مقدمے میں گرفتار ہوجائے تو وہ تمام مقدمات میں گرفتار تصور ہوگا اور جب اس کی ضمانت ہوگی تو وہ تمام  مقدمات میں تصور ہوگی۔

یہ بھی پڑھیے

لاہور اور راولپنڈی کی عدالتوں سے حلیم عادل اور عمران ریاض کی گرفتاریاں غیرقانونی قرار

ایاز امیر واقعہ کے بعد عمران ریاض اور حلیم عادل شیخ کی گرفتاری، کیا پنجاب حکومت فاشزم کی طرف جارہی ہے؟

سینئر صحافی کی گرفتاری کو 2 روز سے زائد گزرچکے ہیں لیکن اٹک کی عدالت کی جانب سے ان کی ضمانت منظور کیے جانے کے باوجود پنجاب پولیس انہیں رہا کرنے سے انکاری ہے اور ایک مقدمے میں ضمانت منظور ہونے کے بعد دوسرےمقدمے میں ان کی گرفتاری ظاہر کردی جاتی ہے۔

اٹک کی مقامی عدالت کی جانب سے ضمانت منظور کیے جانے کے بعد عمران  کو چکوال پولیس نے گرفتار کرلیا تھا تاہم  گزشتہ رو زچکوال میں ان کے مقدمے کی سماعت نہیں ہوسکی۔

عمران ریاض خان کو آج چکوال کی عدالت میں پیش کیا جائےگا تاہم یہاں  ضمانت منظور ہونے کی صورت میں بھی عمران ریاض کی رہائی مشکل نظر آتی ہے کیونکہ انہیں لاہورکی پولیس لائنز  میں  بھی طلب کررکھا ہے۔جس کے بعد انہیں جہلم اور جھنگ لے جایا جائے گا۔

عمران ریاض خان کو بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم رکھاجارہا ہے اور ایک شہر سے دوسرے شہر منتقلی کے باعث وہ گرفتاری کو48 سے زائد گھنٹے گزرنے کےباوجود سو نہیں سکے ہیں۔

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت اور پنجاب پولیس عمران ریاض خان کے معاملے سپریم کورٹ کے صفیہ بی بی کیس کی صریحاً خلاف ورزی کی مرتکب ہورہی ہے کیونکہ عدالت عظمیٰ اس کیس میں قرار دے چکی ہےکہ متعدد مقدمات میں نامزد ایک ملزم کی گرفتاری تمام مقدمات میں تصور ہوگی اور ضمانت منظور ہونے کی صورت میں اسے تمام مقدمات میں رہا تصور کیا  جائے گا۔

متعلقہ تحاریر