نئے زرعی قوانین 85 فیصد غریب انڈین کسانوں کے خلاف ہیں
پنجاب کے سکھ کسانوں کو کھیتوں میں پانی کی فراہمی کے حوالے سے برسوں سے مشکلات درپیش ہیں ۔
انڈیا میں کسان ایک طویل عرصے سے زبوں حالی کا شکار ہیں۔ زرعی اصلاحات نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ نئے زرعی قوانین 85 فیصد غریب انڈین کسانوں کے خلاف ہیں۔ ایسے میں سکھ کسانوں کا غصہ جائز دکھائی دیتا ہے۔ تفصیلی رپورٹ میں ریاست پنجاب اور ہریانہ کے سکھ کسانوں کے غم و غصے کی وجوہات کا جائزہ لیا گیا ہے۔
انڈیا میں نئے زرعی قوانین کے خلاف شروع ہونے والی کسانوں کی تحریک نے حالات کو عدم استحکام کی جانب دھکیل دیا ہے۔ ہر طرف فساد برپا ہے۔ کہیں احتجاج کا شور اٹھ رہا ہے تو کہیں پولیس کے لاٹھی چارج کا شور سنائی دیتا ہے۔
ریاست ہریانہ اور پنجاب میں سکھ و ہندو کسانوں کی بڑی تعداد حکومت کے لاگو کیے گئے زرعی قوانین کو ختم کرنے کے لیے دباؤ بڑھا رہی ہے۔ مظاہرے صرف دہلی کی سرحدوں تک ہی محدود نہیں بلکہ مختلف شہروں کی سڑکوں پر بھی بہادر کسان اپنے حق کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
انڈیا کے یوم جمہوریہ پر سکھ کسانوں کا مودی سرکار پر غصہ اس قدر بڑھ گیا کہ انہوں نے دہلی کے لال قلعے پر اپنا زرد رنگ کا ’نشان صاحب‘ پرچم لہرا دیا۔
مقبوضہ کشمیر کی سابق وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پیغام میں لکھا کہ انڈیا کے کسانوں کے دکھ درد کو ہم بہتر طریقے سے سمجھ سکتے ہیں کیونکہ ان کے ساتھ جو آج ہورہا ہے وہ کشمیری عوام اگست 2019 سے بھگت رہے ہیں۔
Concertina wires & trenches around farmer protests have shocked everyone but the sight is far too familiar for us Kashmiris. Kashmir has been under the worst form of siege since August 2019. The scale of suppression here is unimaginable.
— Mehbooba Mufti (@MehboobaMufti) February 3, 2021
غریب انڈین کسان خودکشی پر مجبور
انڈیا میں غریب کسانوں کا استحصال برسوں سے جاری ہے۔ لیکن، نئے زرعی قوانین نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق انڈیا میں گزشتہ 20 سالوں میں 3 لاکھ کسان خودکشی کر چکے ہیں۔ نسل در نسل قرضوں تلے دبے کسانوں کے پاس آخری راستہ اپنی ہی زندگی کا خاتمہ رہ جاتا ہے۔
متنازع قوانین کیا ہیں؟
انڈیا کی اسمبلی میں 27 ستمبر کو زراعت کے شعبے سے متعلق 3 بل سامنے لائے گئے۔ جنہیں جلد ہی قانونی حیثیت بھی دے دی گئی۔
- زرعی پیداوار تجارت اورکامرس سے متعلق قانون۔
- فارمرزامپاورمنٹ اور پروٹیکشن کا قانون۔
- ضروری اشیا (ترمیمی) کا قانون۔
کسانوں کے غم و غصے کی وجوہات
انڈیا میں کسانوں کے مظاہروں کے بارے میں دنیا بات کررہی ہے لیکن اس غم و غصے کے پس منظر میں چند وجوہات اور عوامل کار فرما ہیں۔
- گزشتہ روز سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کچھ ٹوئٹس سامنے آئیں جن میں امن دیپ سندھو کی کتاب جرنی تھرو فالٹ لائنز کے مختلف اقتباسات شیئر کیے گئے۔ جن میں مودی حکومت کی پنجاب کے کسانوں کے ساتھ کی جانے والی حق تلفیوں پر روشنی ڈالی گئی۔
- ریاست پنجاب کی کھیتوں سے پورے انڈیا کو 40 فیصد گندم اور 30 فیصد چاول پہنچائے جاتے ہیں لیکن پنجاب میں موجود سکھ کسان ایک عرصے سے زبوں حالی کا شکار ہیں۔
- سال 2016 کے معاشی سروے کے مطابق ریاست پنجاب میں موجود کسانوں کے ایک کنبے کی اوسط آمدنی ساڑھے 3 ہزار روپے ہے۔ جبکہ دیگر ریاستوں میں کسانوں کے خاندان کی اوسط آمدنی 20 ہزار ہے۔ پنجاب کے 65 فیصد کسان ناقص وسائل کے باعث بمشکل گزارا کررہے ہیں۔
- سال 2007 میں انڈیا کی جنوبی ریاستوں کے کسانوں کو کھیتی باڑی کے لیے مختلف ریلیف پیکجز فراہم کیے گئے۔ لیکن، پنجاب کے کسانوں کے ساتھ کوئی نرمی نہیں برتی گئی۔
- مالی معاونت کے علاوہ پنجاب کو کھیتوں میں پانی کی فراہمی کے حوالے سے بھی دیگر ریاستوں کی نسبت مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ جس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ پنجاب کے دریاؤں کا کنڑول وفاقی حکومت کو حاصل ہے جبکہ دیگر ریاستوں پر ایسا کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا۔
حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے نئے زرعی قوانین انڈیا کے 85 فیصد غریب کسانوں کے خلاف جاتے ہیں۔ زرعی اصلاحات نجی کمپنیوں کو بڑے رقبے کی زمینیں رکھنے والے کسانوں کے ساتھ براہ راست تعلق بنانے کا موقع فراہم کررہی ہیں۔ جبکہ انڈیا میں 85 فیصد ایسے کسان موجود ہیں جو 2 ایکڑ زمین کے بھی مالک نہیں ہیں۔ ایسے میں غریب کسانوں کا استحصال کوئی اچھمبے کی بات نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیے
دہلی کے لال قلعے پر کسانوں نے ’نشان صاحب‘ لہرا دیا
زرعی اصلاحات سے قبل کسان ایک مقررہ ریٹ پر ہول سیل میں فصلیں حکومتی منڈیوں میں فروخت کرتے تھے۔ جس کا فائدہ یہ ہوتا تھا کہ فصل خراب ہونے کی صورت میں بھی کسانوں کو فصل کی قیمت کے حوالے سے کسی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا۔ نئے زرعی قوانین کے تحت انڈیا کے کاشتکار اپنی فصلیں حکومتی منڈیوں میں فروخت نہیں کرسکیں گے۔ جس کا نقصان یہ ہوگا کہ فصل خراب ہونے کی صورت میں نجی کمپنیاں انہیں پیسے ادا نہیں کریں گی۔
انہی مشکلات اور ناانصافیوں کے باعث پنجاب اور ہریانہ کے کسانوں نے احتجاج کا فیصلہ کیا اور 4 ماہ گزرنے کے باوجود اب تک اس پر ڈٹے ہوئے ہیں۔