ڈونلڈ ٹرمپ دوسری بار مواخذے سے بچ گئے

سابق امریکی صدر کے خلاف مواخذے کی کارروائی سینیٹ میں درکار دو تہائی اکثریت حاصل نہ ہونے کی وجہ سے ختم کردی گئی۔

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایک بار پھر مواخذے کی کارروائی سے بچ گئے ہیں۔ سابق امریکی صدر کے خلاف مواخذے کی کارروائی سینیٹ میں درکار دو تہائی اکثریت حاصل نہ ہونے کی وجہ سے ختم کر کے انہیں تمام الزامات سے بری کردیا گیا ہے۔

امریکی سینیٹ نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنے حامیوں کو کیپیٹل ہل میں ہنگامہ آرائی پر اکسانے کے الزام میں مواخذے کی کارروائی میں بری کردیا ہے۔

امریکی سینیٹ سے مواخذے کی کارروائی سے بچ جانے کے بعد گفتگو کرتے ہوئے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ‘ابھی تو ان کی تحریک شروع ہوئی ہے۔’

سنیچر کی شام امریکی سینیٹ میں 7 ریپبلکن سینیٹرز سمیت 57 ارکان نے ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کے حق میں ووٹ دیا جبکہ 43 اراکین نے اس کی مخالفت کی۔ اس طرح  امریکی سینیٹ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کے لیے درکار دو تہائی اکثریت حاصل نہیں ہوسکی۔

اس طرح سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کيپيٹل ہل پر حملے کی ترغيب دينے کے الزام میں اپنے مواخذے سے بچ گئے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ کا اثر و رسوخ

واشنگٹن کے ایک خبر رساں ادارے کی بیورو چیف کا کہنا ہے کہ ‘امریکی سینیٹ میں ووٹوں کے نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی اب بھی ریپبلکن پارٹی پر گرفت کافی مضبوط ہے۔ موجودہ نتائج سے پتا چلتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی سیاست کا معاملہ ابھی اپنے انجام کو نہیں پہنچا۔’

واضح رہے کہ رواں سال 6 جنوری کو ڈونلڈ ٹرمپ کے حاميوں نے کيپيٹل ہل پر دھاوا بول ديا تھا اور وہاں پرتشدد کارروائيوں ميں 5 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

تہران میں انقلابِ ایران کی بیالسویں سالگرہ منائی گئی

بریت کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کا عزم

امریکی کانگریس ڈونلڈ ٹرمپ کی مدت صدارت ختم ہونے سے پہلے بھی ایک بار ان کے مواخذے کی کوشش کر چکی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ وہ واحد امریکی صدر ہیں جن کے خلاف کانگریس نے 4 سال میں دو بار مواخذے کی کوشش کی۔

امریکی سینیٹ کی جانب سے تمام الزامات سے بری کر دیئے جانے کے فیصلے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سیاسی مستقبل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ‘امریکا کو عظیم بنانے کے لیے ہماری تاریخی اور حب الوطنی سے عبارت خوبصورت تحریک ابھی شروع ہوئی ہے۔’

امریکی صدر جوبائیڈن کا ردعمل

امریکی کانگریس کے فیصلے کے بعد صدر جو بائیڈن نے کہا کہ ‘ہماری تاریخ کے اس افسوسناک باب نے ہمیں یاد دلایا ہے کہ جمہوریت کمزور ہو گئی ہے۔ اگرچہ حتمی رائے دہی میں سزا نہیں دی گئی لیکن جو الزامات لگائے گئے تھے وہ متنازع نہیں تھے۔’

امریکی صدر جو بائیڈن نے مزید کہا کہ ‘امریکا میں تشدد اور انتہا پسندی کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ امریکا ایک عظیم جمہوری روایات کا حامل ملک ہے تاہم اس قسم کے فیصلوں سے جمہوریت کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔’

متعلقہ تحاریر