طالبان کی پیش قدمی، امریکی جریدے کے اشارے
افغان طالبان نے ملک کے 85 فیصد حصے پر قبضے کا دعویٰ کیا ہے۔
افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلاء کے اعلان کے بعد سے طالبان کی پیش قدمی جاری ہے، امریکی جریدے لانگ وار جرنل نے طالبان کی جانب سے قابض علاقوں کا نقشہ جاری کردیا ہے، جبکہ طالبان نے افغانستان کے 85 فیصد علاقے پر قبضے کا دعویٰ کیا ہے۔
تقریباً دو دہائیوں قبل امریکا اتحادی افواج اور افغان حکومت کی مدد سے افغانستان پر قبضے کے لیے طالبان کے خلاف جنگ میں مصروف ہے۔ لانگ وار جرنل کے مطابق جون 2014 میں نیٹو افواج نے افغانستان میں اپنا فوجی مشن ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ سیکیورٹی کی صورتحال کے پیش نظر طالبان دوبارہ سرگرم ہو گئے تھے۔
امریکی جریدے لانگ وار جرنل کی جانب سے جاری ہونے والے نقشے میں افغانستان کے 407 اضلاع میں سے 398 اضلاع ظاہر کیے گئے ہیں۔ جبکہ 9 اضلاع اس نقشے میں شو نہیں کیے گئے ہیں۔
لانگ وار جرنل نقشے میں سرخ رنگ سے ظاہر کیے گئے علاقوں میں طالبان نے قبضہ کرلیا ہے جبکہ مزید کی جانب پیش قدمی جاری ہے۔
عسکری تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ طالبان کا اتنا تیزی سے علاقوں پر قبضہ کرنا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ پہلے سے امریکی افواج کے انخلاء کا انتظار کررہے تھے۔
یہ بھی پڑھیے
سوشل میڈیا سے تحریک آزادی کشمیر کو دوام بخشنے والے شہید برہان وانی
دوسری جانب افغان صدر اشرف غنی نے اعتراف کیا کہ مشکلات ہیں مگر وہ جلد صورتحال پر قابو پا لیں گے۔
دریں اثنا امریکی صدر جوبائیڈن نے اعلان کیا کہ وہ افغانستان پر قبضہ کرنے کے لیے نہیں گئے بلکہ جو مشن امریکی فوج افغانستا لےکر گئی وہ حاصل ہو گیا ہے۔
امریکی افواج نے افغانستان کے ضلع بگرام میں قائم ایئربیس کو 6 جولائی کو رات کی تاریکی میں خالی کیا تھا۔
بگرام ایئربیس خالی کرنے کے بعد جمعہ کی شام امریکی وزیر خارجہ ااینٹونی بلنکن نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ٹیلی فونک رابطے کیا تھا۔ وزارت خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والے اعلامیے کہا گیا ہے کہ دونوں وزرائے خارجہ کے درمیان افغانستان کی موجودہ صورتحال، علاقائی امن اور اقتصادی تعاون پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔
مزید برآں پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر (این ایس اے) معید یوسف نے امریکی میڈیا کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ انخلا کے عمل میں جو غلطیاں روس نے 90 میں کی تھیں وہی غلطیاں امریکا کررہا ہے
معید یوسف کا کہنا ہے کہ افغانستان میں خانہ جنگی کی وجہ سے پناہ گزینوں کو مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے اور پاکستان موجودہ صورتحال میں پناہ گزینوں کو لینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔