افغانستان اسلامی امارت کے قیام پر طالبان کو سخت چیلنجز درپیش

تجزیہ نگاروں کے مطابق طالبان کو اپنے ملک میں جامع حکومت کے قیام پر عملدرآمد کرنا ہوگا۔

طالبان نے اقتدار حاصل کرنے کے بعد افغانستان کے نئے نام افغانستان اسلامی امارت کا اعلان کردیا۔ طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ملک کے سرکاری نشان کی تصویر بھی جاری کردی ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ طالبان کو اہم ممالک کی سخت مخالفت کا سامنا ہے ایسے میں انہیں جامع حکومت کے قیام پر عملدرآمد کرنا ہوگا۔

طالبان جنگجوؤں کے اقتدار پر قابض ہونے کے بعد طالبان قیادت افغانستان پہنچ چکی ہے جہاں نئی ریاست کے قیام پر مشاورت کا عمل جاری ہے۔ اس حوالے سے طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے افغانستان اسلامی امارت کا قیام عمل میں لانے کا اعلان کردیا ہے۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ذبیح اللہ مجاہد نے افغانستان اسلامی امارت کا سرکاری نشان جاری کیا۔

افغانستان کو برطانوی سامراج سے آزادی حاصل کیے 102 سال مکمل ہونے پر ریلی نکالی گئی جس میں مظاہرین نے افغانستان اسلامی امارت کے جھنڈے اٹھائے ہوئے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

کیا طالبان ملالہ کو غلط ثابت کررہے ہیں؟

طالبان کی جانب سے اقتدار پر قبضہ حاصل کرنے کے بعد یورپ اور امریکا سمیت دیگر ممالک نے طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے جبکہ جرمنی اور عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف نے افغانستان کو ملنے والی امداد بھی روک دی ہے۔

سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد طالبان قیادت کو طاقت کے زور پر حکومت قائم  کرنے کے بجائے جامع حکومت کا قیام عمل میں لانا ہوگا، اس صورت میں ہی وہ دنیا کو اپنی حکومت تسلیم کروانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق طالبان قیادت کو اس وقت سوچ سمجھ کر فیصلے کرنے کی ضروت ہے۔ طالبان رہنماؤں کی سابق صدر حامد کرزئی اور قومی مصالحتی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ سے ملاقات خوش آئند ہے۔ ایک متحدہ حکومت میں تمام اسٹیک ہولڈرز کی شمولیت لازمی ہے۔

ایک طرف طالبان اپنی حکومت بنانے کی تیاریاں کررہے ہیں تو دوسری جانب شمال مشرقی صوبے پنجشیر میں افغانستان کے نائب صدر امر اللہ صالح اور احمد مسعود کی تحریک زور پکڑ رہی ہے۔ دونوں رہنماؤں نے طالبان کے خلاف ہتھیار اٹھالیے ہیں جو کہ آنے والے وقت میں طالبان کے لیے کوئی بڑا محاذ کھڑا کرسکتے ہیں۔

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے طالبان کو اقتدار سنبھالنے سے قبل اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا سامنا ہے۔ طالبان کو اقتدار سنبھالنے کے بعد ڈوبتی معیشت اور سفارتکاری کو مضبوط بنانا ہوگا اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب طالبان رہنما اپنے ملک کی تمام سیاسی قیادت کو ساتھ لے کر چلیں۔

واضح رہے کہ افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد افغان رہنماؤں کا ایک وفد پاکستان میں موجود ہے جو کہ ایک مشترکہ حکومت کے قیام کی کوششیں کررہا ہے۔ افغان وفد کا کہنا ہے کہ طالبان طاقت اور بندوق کے زور پر حکومت قائم نہیں کرسکتے۔ افغانستان میں ایک ایسی حکومت کی ضرورت ہے جس میں ہر طبقے اور فرقے کو نمائندگی حاصل ہو۔

عالمی رہنماؤں کی سخت مخالفت پر طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا ہے کہ افغانستان میں فی الحال اقتدار کا خلا ہے۔ اس لیے وہ جامع حکومت کے قیام پر غور کررہے ہیں۔ آنے والے وقت میں مزید اصلاحات پر غور وفکر کیا جائے گا۔

متعلقہ تحاریر