سینئر اسرائیلی حکام نے کیسے سعودی عرب کے خفیہ دورے کیے؟
اسرائیلی شخصیات سعودی عرب جانے کیلیے اسرائیل سے باہر رجسٹرڈ طیارے استعمال کرتی ہیں جو بن گوریان ایئرپورٹ سے اڑان بھرنے کے بعد کسی تیسرے ملک میں مختصر سفارتی قیام کرتے ہیں اور پھر ریاض روانہ ہوتے ہیں۔ اسی طریقہ کار کے ذریعے ایک طیارہ تل ابیب سے براستہ عمان اسلام آباد پہنچا تھا، اسرائیلی صحافی
اسرائیلی صحافی اور معروف اسرائیلی اخبار ہرٹز کے انگریزی ایڈیشن کے سابق مدیر آوی شرف نے سینئر اسرائیلی حکام کے سعودی عرب کے خفیہ دوروں کے طریقہ کار پر سے پردہ اٹھادیا۔
اسرائیلی صحافی نے گزشتہ روز ہرٹز میں شائع ہونے والے طویل مضمون میں اعلیٰ اسرائیلی حکام کے سعودی عرب اور پاکستان کے دورے کے حوالے سے ثبوت بھی پیش کردیے۔
یہ بھی پڑھیے
امریکی صدر پہلی بار اسرائیل سے براہ راست پرواز میں سعودی عرب جائیں گے
صدر جو بائیڈن نے 4.6 ارب سال پرانی کائنات کی تصویر جاری کردی
آوی شرف نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ امریکی صدر بائیڈن کے اس ہفتے مشرق وسطیٰ کے دورے کا ایک اہم مرکز اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان سلامتی اور سفارت کاری دونوں شعبوں میں مثبت تعلقات کو آگے بڑھانا ہے۔
اسرائیل اور خلیجی ریاستیں حال ہی میں ایران کے میزائلوں اور ڈرونز کے بڑھتے ہوئے ذخائر سے اپنی سلامتی کو لاحق خطرات کے خلاف مشرق وسطیٰ کا فضائی دفاعی اتحاد قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
اسرائیل اور سعودی عرب سفارتی سطح پر ایک معاہدے تک پہنچنے کی امید کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں بحیرہ احمر کے دو جزیروں کو سعودی خودمختاری میں منتقل کیا جا سکے گا، جس کے بدلے میں اسرائیل کے تجارتی طیاروں کو مملکت سعودی عرب کے اوپر پرواز کرنے کی اجازت ملے گی۔
یہ تجارتی پروازیں بھارت اور تھائی لینڈ جانے والے اسرائیلیوں کے سفر کے وقت کو نمایاں طور پر کم کر دیں گی ۔ ایک معاہدے میں اسرائیل کے مسلمان شہریوں کے لیے مکہ مکرمہ جانے کے انتظامات بھی شامل ہوں گے۔
ABSOLUTELY rare Israeli flight direct to new Saudi mega-city Neom on Red Sea shore
It was Bibi’s ex-fav bizjet t7-cpx. Back to Tel Aviv after 5 hours on ground pic.twitter.com/Ty9aedYbsK
— avi scharf (@avischarf) November 23, 2020
اسرائیلی اخبار ہرٹز میں شائع ہونے والے مضمون کے مطابق آج تک اسرائیل کی مختلف سینئر شخصیات نے خفیہ طور پر مملکت سعودی عرب کا دورہ کیا ہے، جن میں اسرائیلی ایئر ڈیفنس فورسزکے سابق چیف آف اسٹاف بینی گانٹز اور موساد کے سابق سربراہ تمیر پارڈو بھی شامل تھے جبکہ سابق وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے بھی نومبر 2020 میں سعودی عرب کا دورہ کیا تھا اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کی تھی تاہم یہ ملاقات صحیح وقت پر سامنے آگئی تھی۔
اعلیٰ اسرائیلی حکام کے سعودی عرب کے دورے کیسے ممکن ہوئے؟
دونوں ممالک کے درمیان رسمی یا جزوی تعلقات کی عدم موجودگی میں یہ نادر سیکیورٹی اور سفارتی دورے کیسے ممکن ہوئے؟ اسرائیلی طیاروں کے سعودی عرب میں اترنے پر پابندی ہے جبکہ غیر ملکی طیاروں پر بھی دونوں ریاستوں کے درمیان براہ راست پروازوں پر پابندی ہے۔ پھر یہ کیسے ممکن ہوا کہ سعودی عرب میں سرگرم چند اسرائیلی کاروباری شخصیات اپنے نجی طیاروں میں دارالحکومت ریاض میں اتریں؟
سب سے پہلے یہاں سے شروع کرتے ہیں کہ یہ پروازیں اسرائیل میں رجسٹرڈ طیاروں میں نہیں ہوئیں۔ خفیہ طور پر سعودی عرب جانے کے لیے اسرائیل کے بین گوریان ایئرپورٹ سے روانہ ہونے والی شخصیات کو کسی تیسرے ملک میں رجسٹرڈ نجی طیارے میں سوار ہونا پڑا۔ بیرون ملک جیسا کہ سان مارینو ، کیمین آئی لینڈ ، امریکااور دیگر جگہوں پررجسٹرڈچند درجن نجی طیارے بین گوریون ہوائی اڈے پر سرکاری طور پر کام کرتے ہیں۔
یہ طیارے اسرائیلی ارب پتیوں کی ملکیت ہیں جو انہیں نجی کاروبار اور ذاتی پروازوں کے لیے استعمال کرتے ہیں اور ان میں سے کچھ ایسے افراد کے لیے لیز پر دستیاب ہیں جو مالی وسائل کے ساتھ نجی طیارے میں اپنی منزل تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ اسرائیلی ریاست بین گوریان ہوائی اڈے پر رجسٹرڈ نجی بیڑے چلانے والی متعدد کمپنیوں سے بھی طیارے لیز پر لیتی ہے۔
RARE!!
Israeli bizjet lands Riyadh, Saudi Arabia, just now
m-abgg – via Amman (not direct flight) pic.twitter.com/fKjm0NJnF6
— avi scharf (@avischarf) October 26, 2021
چونکہ غیر ملکی طیارے تل ابیب سے ریاض کے لیے براہ راست پرواز نہیں کر سکتے، اس لیے انہیں کسی پڑوسی ملک میں ایک مختصر”سفارتی قیام“ کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس طرح نجی طیارہ بین گوریون ہوائی اڈے سے ٹیک آف کرتا ہے اور مملکت سعودیہ کےکسی پڑوسی ملک ( مثال کے طور پر عمان )میں اترتا ہے، جہاں وہ جلدی سے رن وے کے آغاز پر واپس آتا ہے اور اسرائیل کا ذکر کیے بغیر بالکل نئے فلائٹ پلان کے ساتھ اپنی منزل کی طرف روانہ ہوتا ہے یو ں یہ فلائٹ عمان تا ریاض شمار کی جاتی ہےاور 90 منٹ کے اندر یہ اسرائیلی شخصیات سعودی دارالحکومت پہنچ جاتی ہیں۔اسی طرح کی تدبیر عقبہ اور شرم الشیخ، مصر کے ذریعے کی جا سکتی ہے ۔
How to fake the fake 5-min-Sharm-trick to enable Israeli bizjets to overfly Saudi Arabia and land AbuDhabi:
Today, n818lx didn’t even bother to land, just go around and then to the Gulf.
Want a direct Israel-Riyadh/Dubai flight? 🇮🇱🇸🇦🇦🇪
This Israeli charter comp now offers 🛩️🙏 pic.twitter.com/79GH70wgjM
— avi scharf (@avischarf) July 22, 2020
اسی”مختصر سفارتی قیام “کی چال کو آج قطر جانے والے تمام کاروباری افراد،سفارتی اور دفاعی اہلکار استعمال کررہے ہیں ۔یہی طریقہ ایک اور ایسے ملک جانے کیلیے استعمال کیا گیا جس کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات نہیں ہیں۔اور اسی طریقے کو ابراہم معاہدے پر دستخط سے پہلے متحدہ عرب امارات و بحرین اور بعدازاں سوڈان اور مراکش جانے کیلیے استعمال کیاگیا۔
اسی چال کے ذریعے اسرائیلی ایگزیکٹو جیٹ پاکستان پہنچا
اسرائیلی اخبار کے مطابق ایک اسرائیلی ایگزیکٹو جیٹ یہی طریقہ اپناتے ہوئے پاکستان پہنچا۔طیارے نے اسرائیل سے اڑان بھرنے کے بعد عمان میں5 منٹ کا مختصر سفارتی قیام کیا اور پھر سعودی عرب کے اوپر سے اڑان بھرتے ہوئے اسلام آباد پہنچا جہاں 10 گھنٹے قیام کے بعد طیارہ واپس اسرائیل روانہ ہوا۔
Israeli 🇮🇱 bizjet flew from TLV to Islamabad, #Pakistan 🇵🇰, on the ground 10 hours, and back to TLV.
Cleared flight-plan with usual 5min groundtime trick in Amman
M-ULTI glex pic.twitter.com/haHn1NU73L
— avi scharf (@avischarf) October 25, 2018
اسرائیلی صحافی آوی شرف کے مطابق اسرائیلی حکام کے یہ تمام حربے کھلے عام اور حقیقی وقت میں فلائٹ ٹریکنگ ویب سائٹس پر نظر آتے ہیں جو عوام کے لیے قابل رسائی ہیں۔ دلچسپی رکھنے والے افراد ان طیاروں کو خود بھی ٹریک کرسکتے ہیں۔
2020 کے آخر میں ابراہم معاہدے پر دستخط کے بعد اس وقت کے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے وعدہ کیا تھا کہ اسرائیلی ایئرلائنز جلد ہی سعودی عرب کے اوپر سے مزید مشرق یعنی تھائی لینڈ اور ہندوستان کے لیے پروازیں کر سکیں گی۔ اس سے پہلےان طیاروں کو بحیرہ احمر کے اوپر جنوب کی طرف پرواز کرنا پڑتی تھی۔ جس سے مشرق جانے والی ہر پرواز میں تقریباً ڈھائی گھنٹے کا اضافہ ہوتا تھا، اور ساتھ ہی ایندھن کی غیر ضروری کھپت بھی ہوتی تھی۔
لیکن وعدے ایک چیز تھے اور حقیقت دوسری۔ سعودی عرب نے صرف اسرائیلی جہازوں کو اپنی سرزمین سے متحدہ عرب امارات اور بحرین کی منزلوں تک پرواز کرنے کی اجازت دینے پر اتفاق کیا جنہوں نے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ آج تکمشرق کی طرف اسرائیلی پروازیں طویل جنوبی راستے پر اڑان بھرتی ہیں جبکہ خلیجی فضائی کمپنیاں سعودی فضائی حدود کے اوپر سے پرواز کر سکتی ہیں۔
واحد غیر خلیجی ایئرلائن جس کو سعودی عرب سے اسرائیل تک پرواز کرنے کی اجازت ملی ہے وہ ایئر انڈیا تھی، جس نے 2018 میں دہلی اور بین گوریون ہوائی اڈے کے درمیان روٹ شروع کیا۔ ان پروازوں میں صرف ساڑھے پانچ گھنٹے لگتے ہیں جب کہ بھارتی شہر ممبئی کے لیے اسرائیلی پروازوں کوتقریباً ساڑھے 7 گھنٹے لگتے ہیں۔
امریکی صدر اسرائیلی اور سعودی عرب کے درمیان براہ راست پروازوں کے آغاز کیلیے پرامید
یہ ممکن ہے کہ اگر اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان معاہدے ہوتے ہیں تو یہ صورتحال جلد بدل سکتی ہے۔اسرائیلی وزیر اعظم یائر لاپڈ کے ساتھ پریس کانفرنس کے دوران صدر بائیڈن سے سوال کیا گیا کہ کیا سعودی عرب اسرائیل کو اپنی سرزمین پر پرواز کرنے کی اجازت دے گا ؟تو انہوں نے سعودی عرب کے مثبت جواب کی امید ظاہر کی تھی۔
اسرائیلی مسلمان براہ راست چارٹر طیاروں میں سعودی عرب جاسکیں گے
صدر بائیڈن کی گفتگو کے ایک گھنٹے بعد ایک امریکی اہلکار نے رائٹرز کو تصدیق کی کہ سعودی واقعی اسرائیلی ایئر لائنز کو بلا روک ٹوک پرواز کی اجازت دیں گے اور حج کے خواہشمند اسرائیلی مسلمانوں کیلیے بھی براہ راست چارٹر پروازیں اڑانے کی اجازت دی جائے گی۔