بھارتی سپریم کورٹ نے تین دہائیوں سے زیرسماعت بابری مسجد کیس بند کردیا

بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کے انہدام کیس میں توہین عدالت کے تمام ترمقدمات کو بند کردیا، توہین عدالت اور درخواست گزارکی تبدیلی کی استدعا بھی مسترد کردی گئی، 2019 میں لکھنو کی عدالت نے ایل کے ایڈوانی، پردیش کلیان، مرلی منوہر جوشی اور اوما بھارتی کو بری کردیا تھا

بھارتی سپریم کورٹ نے 30 سال سے زیر سماعت ایودھیا میں بابری مسجد کے انہدام  کیس  میں توہین عدالت کے تمام ترمقدمات کو بند کردیا ہے جس میں ریاست اترپردیش اور دیگر کے خلاف توہین عدالت مقدمات موجود تھے۔

سپریم کورٹ نے 6 دسمبر 1992 کو اترپردیش کے ایودھیا میں بابری مسجد ڈھانچہ کے انہدام سے متعلق تمام مقدمات کو بند کردیا ہے۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے اس سلسلے میں دائر توہین عدالت کی درخواست کو بھی بند کر دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

بھارتی سپریم کورٹ نے گیانواپی مسجد میں نماز کے بڑے اجتماعات پر پابندی ختم کردی

عدالت نے سماعت کے دوران ریمارکس  دیئے کہ درخواست گزار اسلم بھورے اب اس دنیا میں نہیں رہے جبکہ چیف مدعاعلیہ بھی دنیا سے کوچ کر گئے ہیں جبکہ تنازعہ کی زمین کا بنیادی فیصلہ  بھی سنادیا گیا ہے ۔

بھارتی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ 2019 میں فیصلے کی وجہ سے اب اس معاملے کو برقرار رکھنے کی ضرورت نہیں رہی۔عدالت نے درخواست گزار کی تبدیلی کی درخواست بھی مسترد کردی ہے۔

جسٹس سنجے کشن کول اور ابھے ایس اوکا کی بنچ نے کہا کہ یہ درخواست سپریم کورٹ کے 2019 کے فیصلے کی روشنی میں بے اثر ہو گئی ہے جس میں ہندو فریقین کو متنازعہ زمین کی ملکیت دی گئی تھی۔

یاد رہے کہ ایودھیا میں بابری مسجد کو 6 دسمبر 1992 کو منہدم کردیا گیا تھا۔ سولہویں صدی میں بنائی گئی مسجد کو ہندو انتہاپسندوں نے نے منہدم کردیا تھا جس پر 2 ایف آئی آرز آر درج کی گئیں۔

ایف آئی آرز میں بی جے پی لیڈر ایل کے اڈوانی، اوما بھارتی سمیت لاکھوں  انتہا پسند  کو نامزد کی گیا تھا ۔ بابری مسجد کے انہدام کی وجہ سے  پورے بھارت میں کشیدگی پھیل گئی تھی۔

ستمبر 2020 میں لکھنؤ کی ایک خصوصی سی بی آئی عدالت نے سابق نائب وزیراعظم ایل کے اڈوانی، سابق وزیراعلیٰ اتر پردیش کلیان سنگھ، بی جے پی لیڈر مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی اور کئی دیگر کو بابری مسجد کو مسمار کرنے کے مقدمے میں بری کردیا تھا۔

فیصلے میں کہا گیا تھا کہ مسجد کے انہدام کا باعث بننے والی کسی بھی ملی بھگت کو ثابت کرنے کے لیے مرکزی تفتیشی بیورو (سی بی آئی) کوئی حتمی ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہا۔

واضح رہے کہ بابری مسجد کی شہادت کے بعد بھارت میں ہندو مسلم فسادت میں دو ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے تھے جبکہ اس کے علاوہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں مسلمانوں سے اس پر شدید احتجاج کیا تھا۔

متعلقہ تحاریر