بھارتی انتہا پسند وزیر داخلہ امیت شاہ کی گجرات میں مسلم نسل کشی کا کھلم کھلا اعتراف

بھارت کے ہندو انتہاپسند وزیر داخلہ امیت شاہ نے مسلمانوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ 2002 میں فسادیوں کو ایسا سبق دیکھایا گیا ہے کہ اب ریاست میں شانتی ہے، انہوں نے گجرات میں مسلم اکژیتی علاقے واگرا کو فسادات کا گڑھ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہاں موجود لوگوں کو چن چن کے جیل میں ڈالا گیا اب کسی کی دوبارہ ہمت نہیں ہوگی

بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کا کہنا ہے کہ 2002 میں گجرات میں مذہبی فسادات نہیں ہوئے تھے بلکہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بے جے پی ) نے 2002 میں گجرات میں فسادیوں کو سبق سیکھاکر اسٹیٹ میں امن و امان قائم کیا گیا تھا ۔

ریاست گجرات کے علاقے مہودھا میں ایک جلسے سے خطاب میں مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے2002 میں ہندو مسلم فسادات کو مذہبی تنازعہ ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت فسادیوں کو سبق سیکھایا گیا اور امن قائم کیا ۔

یہ بھی پڑھیے

بھارتی گجرات میں پولیس اہلکاروں نے مسلمانوں پر کوڑے برسا دیئے

بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کا کہنا تھا کہ بی جے پی حکومت نے 2002 میں گجرات میں "فرقہ وارانہ فسادات میں ملوث افراد” کو” ایسا سبق 2002 میں پڑھایا جس کی وجہ سے آج  ریاست میں مکمل امن و امان قائم  ہے ۔

بھارت کے ہندو انتہاپسند وزیر داخلہ امیت شاہ نے گجرات میں مسلم اکژیتی علاقے واگرا کو فسادات کا گڑھ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہاں بہت سے فرقہ ورانہ فسادات برپا کیے گئے مگر 2002 میں انہیں ایسا سبق دیکھایا کہ اب امن ہے ۔

انہوں نے کہا کہ مسلمانوں فسادیوں نے 2002 میں آخری بار اپنی ہمت دکھائی تھی مگر مودی کی سربراہی میں ریاستی حکومت نے ایسے افراد کو چن چن کر جیل میں ڈالا۔ اب 20 سال بعد امن و امان ہے اور ریاست میں کوفیو کی ضرورت نہیں ہے ۔

امیت شاہ کا کہنا تھا کہ گجرات میں کانگریس دور حکومت میں بھی فسادات ہوئے جبکہ ایسا ہی مودی کی حکومت میں بھی دہرانے کی کوشش کی گئی مگر ان کو وہ سبق دیا ہے کہ اب کسی میں دوبارہ سر اٹھانے کی ہمت نہیں ہوگی ۔

بھارت کے ہندوانتہاپسند وزیر داخلہ امیت گجرات میں مسلمانوں کو بنا نام لیے دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ فسادی فوری طور پر گجرات سے چلے جائیں۔ بی جے پی گجرات کو فرقہ وارانہ فسادات کی آگ سے بچائے گی ۔

مہودھا جلسے میں امیت شاہ نے کانگریس قیادت کو نشانہ بنایا اور راہول گاندھی پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ وہ مہودھا نہیں آنے والے ہیں۔ وہ انتخابی نتائج کو بہت بہترجانتے ہیں، اس لیے وہ گجرات میں اپنا چہرہ نہیں دکھا رہے ہیں۔

انتہاپسند وزیر داخلہ نے کہا کہ کانگریس نے بھی گجرات میں امن و امان کے قیام کی بات نہیں کی۔ انہیں اب حق نہیں اس پر بات کریں۔ کانگریس نے برسوں گجرات پر حکومت کی اور اسے فرقہ واریت کی نظر کیا ہے ۔

یاد رہے کہ بھارتی ریاست گجرات میں فروری اور مارچ 2002ء میں ہونے والے یہ فرقہ وارانہ فسادات اس وقت شروع ہوئے جب گودھراٹرین میں آگ لگنے سے 60 انتہاپسند ہندو ہلاک ہوگئے تھے اور اس کا الزام مسلمانوں پر لگایا گیا تھا ۔

بھارت سمیت دنیا بھر کے انسانی حقوق کی تنظیمیں اسے باقاعدہ مسلمانون کی نسل کشی قرار دے چکی ہیں جبکہ گجرات میں ہونے والے قتل و غارت کے معاملے پر نریندر مودی پر عالمی سطح پر بھی مقدمات درج کیے گئے تھے ۔

یہ بھی پڑھیے

امریکا نے مودی اور محمد بن سلمان سمیت کئی قاتلوں کو استثنیٰ دینے کا اعتراف کرلیا

انسانی حقوق کی تنظیموں نے اپنی رپورٹس میں بتایا گیا کہ مودی کی حکومت کے دوران 2500 مسلمانوں کو انتہائی بے رحمی سے قتل کیا۔ سیکڑوں  مسلم خواتین کی آبروریزی کی گئی ۔ ہزاروں گھر نذر آتش کیے گئے ۔

گجرات میں 2002 میں ہونے والی مسلم نسل کشی کے معاملے پر پاکستان،بنگلہ دیش، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات سمیت بہت سے مسلم اور غیر مسلم ممالک  اور  یورپی یونین  نے بھی بھارتی حکومت سے  احتجاج کیا تھا ۔

امریکا نے بھی اس وقت کے گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کے خلاف مقدمہ درج کیا اور اس کی امریکا آمد پر پابندی لگائی تھی تاہم مودی کے بھارتی وزیراعظم بننے کے بعد بطور سربراہ مملکت انہیں امریکا میں داخلے کی اجازت دی گئی تھی ۔

متعلقہ تحاریر