وفاقی دارالحکومت میں جرائم میں اضافہ، خاتون سینیٹر کا گھر لوٹ لیا گیا
آئی جی اسلام آباد پولیس قاضی جمیل نے انکشاف کیا کہ اسلام آباد میں حالات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں بے شمار گروپس اور نئے گینگ بن گئے ہیں۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بڑھتے ہوئے جرائم کا معاملہ ایوان بالا تک پہنچ گیا۔ خاتون سینیٹر نزہت صادق بھی محفوظ نہیں رہیں، دن دہاڑے ان کا گھر بھی لوٹ لیا گیا ۔
آئی جی اسلام آباد پولیس نے انکشاف کیا کہ شہر اقتدار میں بے شمار گروپس اور نئے گینگ بن گئے ہیں۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے چیئرمین اور اراکین نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں امن و امان، چوری، ڈکیتی و دیگر جرائم کی بڑھتی ہوئی وارداتوں پر شدید تحفظات کا اظہارکرتے ہوئے کہا ہےکہ عوام کو تحفظ فراہم کرنا پولیس اور دیگر اداروں کےفرائض منصبی میں شامل ہے۔
یہ بھی پڑھیے
تحریک انصاف کی رہنما لیلیٰ پروین پر ملیر کورٹ میں وکلا کا بہیمانہ تشدد
قصور میں زیرحراست ملزمہ پر تشدد، سب انسپیکٹر اور لیڈی کانسٹیبل فارغ
وفاقی دارالحکومت میں امن و امان کے حالات کی تنزلی سے تمام لوگ پریشان ہیں۔ اسلام آباد کے پوش علاقوں میں چوری، ڈکیتی، قتل اور زیادتی کے واقعات ہونا متعلقہ اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہیں۔ اجلاس میں سینیٹر نزہت صادق کی اسلام آباد میں واقع رہائش گاہ پر دن دہاڑے ہونے والی ڈکیتی کی واردات اور ملزمان گرفتار نہ کیے جانے پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا۔ اسلام آباد پولیس نے بتایا کہ ان کے پاس صرف 49 گاڑیاں اور 130 موٹر سائیکل ہیں۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے چیئرمین محسن عزیز کی زیر صدارت اجلاس میں سینیٹر نزہت صادق نے کہا کہ اسلام آباد کے سیکٹر ایف ٹین میں واقع ان کی رہائش گاہ پر دوپہر ڈیڑھ بجے سفید گاڑی میں پانچ سے چھ ملزمان داخل ہوئے۔ گھر کے ملازمین کو یرغمال بنا کر ڈکیتی کی گئی ان کے خاوند بھی گھر پر موجود تھے۔ سیکٹر F-10 میں گزشتہ چند دنوں کے دوران بہت سی ڈکیتیوں کے وارداتیں ہو چکی ہیں۔ ان کا کہنا تھاکہ حکومت کی ناک کے نیچے ایسے حالات ہونا لمحہ فکریہ ہے۔ 15 پر کال بھی کی نمبر مصروف تھا اور کسی نے 15 سے بیک کال نہیں کی۔
آئی جی اسلام آباد پولیس قاضی جمیل نے انکشاف کیا کہ اسلام آباد میں حالات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں بے شمار گروپس اور نئے گینگ بن گئے ہیں۔ محکمہ پولیس امن و امان اور تحفظ کی فراہمی کیلئے نئی اصلاحات عمل میں لا رہی ہے۔ فوری ایکشن کیلئے سسٹم بنائے جا رہے ہیں پولیس کی گاڑیوں اور بائیکس پر ٹریکر لگائے جا رہے ہیں اور موبائل گاڑیوں کی تعداد بھی بڑھائی جا رہی ہے۔
آئی جی پولیس اسلام آباد نے کہا کہ سیف سٹی پروجیکٹ کے تحت وفاقی دارالحکومت میں 1900 کیمرے لگائے گئے تھے جن میں سے 96 فیصد کام کر رہے ہیں۔ یہ منصوبہ دس سال پہلے کی آبادی کیلئے تھا اب اسلام آباد بہت پھیل چکا ہے اور موجودہ کیمروں سے صرف 30 فیصد کوریج کی جا رہی ہے۔ 1900 مزید کیمروں کیلئے پلان بنا کر بھیجا گیا ہے۔ بہتر تحفظ اور سیکورٹی کو یقینی بنانے کیلئے پرائیویٹ تنظیموں کو بھی ساتھ ملایا جا رہا ہے۔ اسمارٹ گاڑیاں لی جا رہی ہیں اور صوبہ خیبر پختونخوا، پنجاب اور سندھ سے بھی مشاورت کی جا رہی ہے صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر جرائم پیشہ افراد کا ڈیٹا اکٹھا کیا جا رہا ہے بہتر ٹیکنالوجی کے استعمال سے معاملات میں بہتری لائی جا ئے گی۔
قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ وفاقی دارالحکومت میں جرائم بڑھ رہے ہیں۔ 2017 میں اسلا م آباد میں قتل چوری، اغوا اور ڈکیتوں کے 7136 واقعات رپورٹ ہوئے۔ 2018 میں 9465، 2019 میں 9748 اور 2020 میں 10539 کیسز رپورٹ ہوئے۔
کمیٹی کو بتایا گیا کہ اسلام آباد میں کرونا وبا کے دوران 52سو احتجاج، جلسے، جلوس و دیگر لوگوں کے اجتماع ہوئے ،جنہیں کنٹرول کرنے کیلئے بھی پولیس نے اقدامات اٹھائے۔
سینیٹر فوزیہ ارشد نے کہا کہ اسلا م آباد کے مختلف سیکٹرز جرائم کے گڑھ بن گئےہیں۔وہاں پولیس کی نفری نظر آنی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ایس ایچ او تھانے کا انچارج ہوتا ہے مگر افسوس کی بات ہے کہ انچارج کا رویہ عام عوام کے ساتھ انتہائی نا مناسب ہوتا ہے۔