پارلیمنٹ نے 2013 کی مردم شماری میں سندھ کے حقوق کو بلڈوز کیا، مراد علی شاہ
مراد علی شاہ نے کہا کہ آج کے کابینہ اجلاس میں متعدد ترامیم کی منظوری دی گئی ہے جسے ہفتہ کے روز اسمبلی میں پیش کرکے قانون میں تبدیل کیا جائے گا۔
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے 17 نومبر کو پارلیمنٹ نے 2013 کی مردم شماری کو منظور کرلیا جس میں سندھ کے حقوق کو بلڈوز کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کے مطالبے پر ہم نے ٹاؤن تشکیل دئے، کراچی بڑا شہر ہے اس وجہ سے ضلع کونسل کو ختم کیا گیا ہے، باقی چھ ڈویژن میں ٹاؤن سسٹم لائے ہیں، ہمارے سسٹم میں رکن اسمبلی بننے کے بعد تنخواہ شروع ہوجاتی ہے، میئر بننے کیلئے بھی ہم نے انکا ایسا مطالبہ مان لیا ہے۔
وزیراعلیٰ ہاؤس میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا سید مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کے بعد فیصلہ کیا گیا ہےکہ لوکل گورنمنٹ کے قانون میں ترامیم کی گنجائش ہے مگر اس قانون میں ترامیم پرانی مردم شماری کے باعث نہیں کرپارہے تھے۔
یہ بھی پڑھیے
سندھ کے سرکاری اور نجی اسکولوں میں موسم سرما کی تعطیلات کا اعلان
انہوں نے کہا کہ ہم نے جو قانون پاس کیا اس پر الزامات کا سلسلہ شروع ہوگیا اوراس طرح سے پیش کیا گیا کہ جیسے ہم نے ڈاکہ مارا ہے اورچوری کرلی ہے۔ پرانے نظام کے مطابق آبادی کا تعین کرنے سے یوسیز کی تعداد بڑہ جاتی ہے اور سنبھالنا ممکن نہیں ہوتا ۔ ہم نے اس قانون کے حوالے سے جلد بازی دکھائی کیوں کہ الیکشن کمیشن کو یکم دسمبر سے قبل قانون دینا تھا۔
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ مجھے میڈیا پر کہنا تو نہیں چاہئے لیکن یہاں میں ضروری سمجھتا ہوں کہ تھوڑی وضاحت پیش کروں کہ گورنر سندھ عمران اسماعیل سے ملاقات کی جس میں مجوزہ قانون سے متعلق بات چیت کی اور انھیں سمجھایا۔
ان کا کہنا تھا کہ گورنر صاحب کے ساتھ ملاقات ہوتی رہتی ہے جب بھی وہ بلاتے ہیں ہم جاتے ہیں، میں نے انھیں کہا کہ ملاقات سے قبل میں نے باتین ٹی وی پر سن لیں تھیں جن کا ذکر ہو چکا ہے۔ ملاقات میں انہوں نے ڈی ایم سیز کے خاتمے پر اعتراض کیا، نئی جماعتوں پر تو اعتراض نہیں مگر جماعت اسلامی پر حیرت ہے کہ نعت اللّٰہ صاحب، ناصر شاہ یا علی گوہر مہر، کنور نوید جمیل جو بھی شخص تھے جب وہ منتخب ہو کر آئے اس وقت ان پر کوئی اعتراض نہیں کیا گیا، ہم نے کسی بھی شخص کو ہٹایا مگر یہ سب لوگ فائدہ حاصل کرنے والے تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 26 کے مطابق ہم نے خفیہ ووٹ کی شق ڈالی ہے، اس بات پر اتنا ہنگامہ کیوں ڈالا گیا ہے؟ اپوزیشن شو آف ہینڈ چاہتے ہیں تو یہ متصادم ہے مگر پھر بھی ہم نے ترمیم کردی ہے۔
مراد علی شاہ نے کہا کہ آج کے کابینہ اجلاس میں متعدد ترامیم کی منظوری دی گئی ہے جسے ہفتہ کے روز اسمبلی میں پیش کرکے قانون میں تبدیل کیا جائے گا۔انھوں نے بتایا کہ ہم نے شیڈیول میں ترمیم کا اختیار کابینہ کو دینا چاہا لیکن اعتراض کیا گیا اور واپس لے لیا،وہ ہم سے صرف پوچھ لیتے تو بتادیتے مگر انھوں نے پوچھنا گوارہ نہیں کیا۔انھوں نے بتایا کہ ہم نے ٹیکس کو ڈی ایم سی سے ٹاؤن کو منتقل کیا ہے۔ ہم پراپرٹی ٹیکس ایکسائیز کے ذریعے وصول کرتے تھے اب وہ انکو منتقل کیا ہے،اس وقت اس میں کمی کا خدشہ ہےاور ہم تو انکو اضافی ٹیکس دے رہے ہیں،جب یہ وصول کریں گے تو خرچ کا بھی انکو اختیار ہوگا۔
وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ 2001 کا آرڈیننس تھا اس میں سیکشن 6 موجود ہے جس میں 20/19کی آبادی میں کمی بیشی کی گنجائش موجود ہے اور اس سیکشن کا اختیاز الیکشن کمیشن کو ہے جوکہ برقرار ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ہم نے اسکول اور اسپتال یا ٹیچنگ اسپتال انفیکشن ڈزیز سندھ حکومت کو چلانے کا کہا ہے، اس معاملے پر اب کوئی بہانہ نہیں سنا جائے گا یہ صوبے کی ذمہ داری ہے اسے ہم چلائیں گے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ ہم معذرت کرتے ہیں دودھ کی قیمتوں کا تعین کا اختیار ہم نے لیا تھا وہ انکو واپس دے دیتے ہیں۔بل سے متعلق وضاحت کرتے ہوئے مراد علی شاہ نے بتایا کہ شیڈیولز میں ترامیم کی ضرورت تھی شیڈیول 9 ہم نے ڈالا ہے، اس سے کابینہ کا اختیار اب اسمبلی کو حاصل ہوگا۔ صحت، تعلیم، کھیل، مویشی اسپتال یہ سب صوبہ کرے گا، یونین کونسل اب ہر تین ماہ میں کارکردگی رپورٹ بناکر دے گا، یونین کونسل جائزہ لے گا اور اس پر رپورٹ دے گا۔ بیسک ہیلتھ، ٹاؤن اسپتال یا ڈسٹرکٹ کے اداروں کو ہم نے نچلی سطح پر منتقل کیا ہے وہ انکو رپورٹ کریں گے۔ ہر تھانہ بھی اب یونین کونسل کو رپورٹ دے گا جس پر وہ اعتراض بھی کر سکتے ہیں اور لکھ بھی سکتے ہیں ۔
وزیراعلیٰ سندھ نے قانون میں ایک نئی ترمیم سے متعلق بتاتے ہوئے کہاکہ ایک فیصد مخصوص سیٹیں معذوروں کیلئے اور ایک فیصد سیٹیں خواجہ سراؤں کو دے رہے ہیں۔انھوں نے بتایا کہ ہم نے امپاورمنٹ میں بہت سی چیزیں دی ہیں ، ہم انتظامی مداخلت کی اجازت نہیں دے سکتے مگر وہ مسجد ،اسکول سب کو مانیٹر کرسکتے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ اسپورٹس کو میئر اور وزیر بلدیات مانیٹر کریں گے، واٹر بورڈ اور ویسٹ مینجمنٹ کیلئے میئر منتخب ہوگا تو وہ اس کے چیئرمین بن جائیں گے، بورڈ کو پہلے کمشنر ہیڈ کرتا تھا اب میئر کرےگا جبکہ کمشنر انکو فالو کرے گا۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ سندھ کے دیگر اضلاع میں ڈی سیز کوبھی اسی طرح کا حصہ ہونگے،اسی طرح عمر کوٹ کے لوگ بھی ویسٹ مینجمنٹ لانا چاہتے ہیں تو وہاں بورڈ بننے کے بعد چیئرمین بھی اسکا ممبر ہوگا۔وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ قانون میں ہم نے تیسرے ستون کو جمہوریت کیلئے مزید بااختیار کیا ہے ،کراچی شہر میں 22 ایم این ایز ہیں، کیا میئر وہ ان تمام حلقوں سے انتخابات لڑ سکتے ہیں؟ اس الیکشن کیلئے ہزاروں کتب و بیلٹ پیپرز شایع کرنے پڑیں گے۔
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ ای وی ایم پر انتخابات ہوئے تو کیا پتہ کب مشینیں ہینگ ہوجائیں اگر اس سسٹم کے تحت الیکشن ہوا تو یہ انتظامیہ کو چلانے کے قابل نہیں ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ گورنر سندھ کے اعتراض پر حیرت ہے! ہم نے سوائے ایک مطالبے کے جس پر وہ ڈٹے ہوئے ہیں ، باقی سب مطالبے مان لئے ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ نے چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کے اعلان کے متعلق بتایا کہ پورے ملک میں پیٹرول کے بعد گیس کی شدید قلت ہے، قیمتوں میں بے جا اضافہ کیا گیا اور ملک شدید مہنگائی سے گذر رہا ہے ،غریبوں کی جیبوں سے پیسے نکالے جارہے ہیں، لوگوں کو لوٹا جارہا ہے جس کو مدنظر رکھتے ہوئے کل پورے ملک میں پیپز پارٹی احتجاج کرنے جارہی ہے اور 27 دسمبر کو شہید بینظیر بھٹو کی برسی پر جلسہ ہوگا۔
وزیراعلیٰ سندھ نے بتایا کہ ہمارے بھی کچھ دوست ہیں تو کیا انکو نوازتے رہیں؟ وفاق کے دو وزراء نے بتایا کہ پیٹرولم ڈیلرز کی کمیشن پر بات کابینہ میں آئی جس پر قابل وزیر اعظم نے فیصلہ اپنے دوست کے حق لیا ۔ وفاقی کابینہ میں وزیر اعظم کے دوست نے انھیں تڑی لگائی اس پر کیا گیا؟وزیر انھیں بول رہا ہے کہ ہماری کمیشن بڑھائی جائے ورنہ پیمانہ کم کردیا جائے گا۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ اس حکومت کی فیصلہ سازی کا یہ عالم ہے اس پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے ؟ کیا اب فیصلہ بریفنگ کے بجائے دوست کی تڑی دینے پر کیا جائے گا؟ یہ لوگ قانون کو نہیں سمجھتے ۔افسران کے تبادلے پر کھیل کھیلا جارہا ہے ۔
وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ ہم بلدیاتی نظام پر انا کا شکار نہیں ہیں، پہلے بھی بلدیاتی نظام میں اکثریت ناظمین کی ہماری تھی، اس دفعہ اگر کوئی بھی شخص آیا تو وہ بھی ہمارا ہی آئے گا۔ انھوں نے کہا کہ پولیس کے قانون میں بہتری کی ضرورت پر اتفاق کرتا ہوں، اس پر قانون سازی ہوگی یہ صوبے کے بہتری کیلئے ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ شو آف ہینڈ پر ہم نے اپوزیشن کی بات مان لی ہے، ایک شخص گھیراؤ کی دھمکی دیتا ہے ایسی باتین بہت سن لیں ہیں، جب تک اللہ تعالی چاہے گا اور ساتھی چاہیں گے میں وزیراعلیٰ سندھ رہوں گا، یہ تڑیاں لگانا چھوڑ دیں !یہ روش ماضی میں آپ کے ساتھ ہوتی تھی جسکو ہم نے دیکھا ہے،افسوس کی بات ہے لسانیت کی باتیں ہو رہی ہیں۔ ہمارے بڑے سعودی عرب سے آئے ہیں مگر ہم یہاں بسے تو ہم خود کو سندھی کہلواتے ہیں۔
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ اس شہر کا کوئی بارڈر نہیں روزانہ ہزاروں لوگ آتے ہیں اور یہیں بس جاتے ہیں۔ میرے یا کسی اور کے متعلق یہا ں بسنے کے الزامات لگانا مناسب نہیں، ہمارے بزرگ دیگر ملکوں سے آئے ہیں تو اس طرح کے الزامات غلط اور بے بنیاد ہیں، ہم لسانیت پر یقین نہیں کرتے۔ ہمارے بڑے تب یہاں آئے جب یہ لوگ آئے ہی نہیں تھے، ہم نے آرڈیننس جو لایا اس میں سابق ججز شامل کئے ہیں، ایک بڑا کانسٹیٹوشن ایوی ایشن جس پر 17ارب کا جرمانہ لگایا، اگر امیر کیلئے ایک قانون اور غریب کیلئے الگ ہے یہ درست نہیں، اس اوینو میں ججز اور بڑے سلیکٹڈ کی ملکیت تھی ۔
میں کہتا ہوں نسلہ ٹاور میں اگر مراد علی شاہ ذمہ دار ہے اسے سزا ضرور ملنی چاہئے۔ انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کو اس بات کا تعین کرنا چاہیئے کہ اس کا مجرم کون تھا، اس معاملے پر کمیشن بننا چاہئے اور تعین ہونا چاہئے، ون وے کے بجائے قانون کو برابر لاگو ہونا چاہیئے، جس نے بھی جرم کیا ہے اسے سزا ملنی چاہئے۔ نسلہ ٹاور کے مکینوں کا کیا قصور ہے؟ جو بھی ذمیدار ہے انکو بچنا نہیں چاہئے۔ گورنر کا جو آئینی حق ہے کہ 15 دن کے بعد اعتراض لگاکر بھیجیں گے ہم اسے حل کریں گے۔ وزیر اعظم کا دعوت نامہ ڈاک سے ملا ہے پروگرام نہیں ملا دو بجے وقت دیا گیا ہے اور میں دو بجے جمعہ کی نماز پڑھوں گا۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ پہلے مجھے کے سی آر پر بلایا گا مجھے اس وقت بات کرنے کی کلیئرنس نہیں ملی، مجھے اس دعوت میں بات کرنے دیا گیا تو کروں گا۔ گرین لائین کا پہلے بھی دو مرتبہ افتتاح ہوچکا ہے۔ انھوں نے کہاکہ 2015 میں میاں نواز شریف نے کہا تھا کہ یہ ایک سال میں بن جائے گا، 2016 میں بھی کہا گیا یہ اسکیم بن گئی ہے مگر ابھی تک بنی نہیں۔ ریڈ لائین کی اس اسکیم کو یہاں بیٹھ کر میں نے منظورکیا اور ایک ارب کی ہماری فنانس بھی ہے، مجھے بتایا گیا کہ اس حوالے سے ابھی تک پروکیورمنٹ ہی نہیں کی گئی ہے۔