طالبان حکومت پر پابندیوں:افغانستان میں صحت کا نظام تباہی کے دہانے پر

ماہرین صحت نے سخت انتباہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے تنخواہوں کی عدم ادائیگی کی وجہ سے طبی عملہ دستیاب نہیں ہے جبکہ مریضوں کے لیے طبی سہولیات کو فقدان بھی ہے۔

طالبان حکومت کے خلاف مغربی پابندیوں کی وجہ سے افغانستان میں صحت کا نظام بڑے پیمانے پر تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ بین الاقوامی ماہرین نے خبردار کیا ہے ملک میں بیماریوں کے پھیلنے اور غذائی قلت کے خدشے کے پیش نظر بڑا بحران جنم لے سکتا ہے۔

قحط سالی کے شکار ملک میں اور اگست میں طالبان حکومت کے آنے کے بعد ملک کو ایک بڑے انسانی بحران کا سامنا ہے۔ طبی عملے کے ارکان تنخواہوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے کام چھوڑ ہڑتال پر مجبور ہے جبکہ اسپتالوں میں صحت کی سہولیات میں مریضوں کے علاج کے لیے بنیادی اشیاء تک موجود نہیں ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

برطانیہ میں اومیکرون وائرس سے پہلی موت ہوگئی

صہیونی ریاست اسرائیل کے وزیراعظم کا دورہ متحدہ عرب امارات

جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے سینٹر فار ہیومینٹیرین ہیلتھ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر پال اسپیگل نے کہا کہ انہوں نے ملک میں حالیہ پانچ ہفتوں کے دورے کے دوران اسپتالوں کی حالت زار دیکھی ہے جوکہ انتہائی ناگفتہ بے ہے۔ اسپتالوں میں ایندھن، ادویات، حفظان صحت سے متعلق مصنوعات کی کمی ہے اور بنیادی ادویات بھی موجود نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا ہے کہ کووڈ 19 کے بعد بعد ملک کو صحت عامہ کی گمبھیر صورتحال کا سامنا ہے مغربی ممالک کو اپنی پابندیوں پر نظرثانی کرنی چاہیے۔

غیر ملکی خبررساں اداراے گارڈین سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر پال اسپیگل اور اقوام متحدہ کے سابق ڈائریکٹر کا کہنا تھا صورت حال بہت بری ہے جو مزید خرابی کی جانب جاری ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ملک میں اس بیک وقت چھ بیماریاں پھیلی ہوئی ہیں جن میں ہیضہ، خسرہ کی ایک بڑی وبا، پولیو، ملیریا ، ڈینگی بخار اور کورونا وائرس کی وبا شامل ہیں۔

ڈاکٹر پال اسپیگل کا کہنا تھا کہ دو دہائیوں پرانی اسکیموں کے تحت ابھی تک مالی اعانت کے ساتھ طبی سہولتی فراہم کی جارہی تھیں، تاہم اب ایک بڑا حصہ ان سہولتوں سے محروم ہو گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ صحت کے حوالے سے کام کرنے والی عالمی تنظمیوں اور این جی اوز نے طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد اپنے پروگرامز کو روک دیا انہیں ان پروگرامز کو شروع کرنا چاہیے تاکہ ملک کسی بڑی آفت سے محفوظ رہ سکے۔

انہوں نے بتایا کہ "میں اپنے کیریئر کے دوران ہر جگہ رہا ہوں۔ چونکانے والی بات یہ ہے تنظیموں نے اپنے پروگرام کو تقریباً بند کردیا ہے ۔ افغانستان میں صحت کی دیکھ بھال میں معاونت کرنے والی اقوام متحدہ کی تنظیمیں اور این جی اوز صرف شدید ہنگامی صورتحال سے نمٹ رہی ہیں۔”

ڈاکٹر پال اسپیگل نے بتایا کہ افغانستان میں کووڈ-19 کے کیسز سے نمٹنے کے لیے 39 اسپتال ہیں مگر ان میں سے صرف 7 اسپتال اس وقت آپریشنل ہیں۔ کووڈ سے متاثرہ مریضوں کے لیے اسپتالوں کی انتظامیہ کے پاس آکسیجن گیس نہ ہونے کے برابر ہے۔

ان کے تبصرے کے مطابق 23 ملین والے آبادی کے ملک افغانستان میں صحت کی صورتحال وقت کے ساتھ ساتھ مزید تشویشناک ہوتی جارہی ہے ۔ معاشی مسائل الگ سے سر اٹھا رہے ہیں۔ آئی ایم ایف کی جانب سے مالی امداد کی بندش سے ملک کی 30 فیصد آبادی مزید معاشی بدحالی کا شکار ہو گئی ہے۔ لوگوں کے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہے تو صحت کے لیے کہاں سے خریداری کریں گے۔ ڈؑاکٹر پال اسپیگل کا کہنا تھا کہ کابل اور دیگر بڑے شہروں سےباہر صورتحال اس بھی زیادہ خراب ہے۔

متعلقہ تحاریر