کرونا کے باعث مزید 2 صحافی انتقال کر گئے
اسلام آباد میں نوائے وقت سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی سہیل عبدالناصر اور روزنامہ اوصاف سے تعلق رکھنے والے صحافی جوہر مجید کرونا کا شکار ہوگئے تھے۔
پاکستان میں جیو نیوز سے وابستہ سینئر صحافی اور نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے سینئر نائب صدر ارشد وحید چوہدری اور ہم نیوز سے وابستہ طارق محمود ملک کی کرونا کے سبب اچانک وفات کا صدمہ ابھی تازہ تھا کہ مزید 2 صحافی کرونا وباء کی وجہ سے انتقال کر گئے ہیں۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں نوائے وقت سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی سہیل عبدالناصر اور روزنامہ اوصاف سے تعلق رکھنے والے صحافی جوہر مجید کرونا کا شکار ہوگئے تھے جس کے بعد وہ انتقال کر گئے ہیں۔ جوہر مجید گذشتہ کئی روز سے راولپنڈی انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی میں وینٹی لیٹر پر تھے جبکہ سہیل عبدالناصر بھی مقامی ہسپتال میں زیر علاج تھے۔
وزیراعظم عمران خان کے مشیر برائے احتساب مرزا شہزاد اکبر نے اپنی ٹوئٹ میں نوائے وقت کے صحافی کے انتقال پر تعزیت کا اظہار کیا ہے۔
ابھی معلوم ہوا کہ نوائے وقت کے سینیر صحافی سہیل عبدلناصر کا کرونا کے باعث انتقال ہوگیا انتہائی نفیس، ملنسار اور با اصول انسان تھے اللہ انہیں جوار رحمت میں جگہ عطا کر ے pic.twitter.com/H5GqL0v0b1
— Mirza Shahzad Akbar (@ShazadAkbar) March 26, 2021
صحافی گھروں تک محدود نہیں رہ سکتے
کرونا وباء کے سبب دنیا بھر کی طرح پاکستانیوں نے بھی اپنے پیاروں کو کھویا ہے۔ لاک ڈاؤن میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد گھروں تک محدود ہوگئے ہیں مگر صحافتی فرائض کی ادائیگی گھروں تک محدود رہ کر نہیں کی جاسکتی۔ اسی وجہ سے متعداد رپورٹرز، کیمرہ مین اور ڈی ایس این جی اسٹاف کے ممبران کرونا وباء کا شکار ہوگئے ہیں۔
پشاور کے مقامی نیوز چینل سے وابستہ سینئر صحافی فخر الدین سید، ملتان کے سینئر صحافی سید آصف علی فرخ، بدین کے سینئر صحافی حنیف زئی اور سرکاری نیوز ایجنسی کے سابق چیف رپورٹر اور اے پی پی ایمپلائز یونین کے سابق صدر ظفر رشید بھٹی سمیت کئی صحافی کرونا وائرس کا شکار ہو کر انتقال کر گئے ہیں۔ جبکہ اس مہلک وائرس کا شکار ہونے والے صحافیوں اور میڈیا کارکنان کی تعداد ہزار تک جاپہنچی ہے۔
ایک برس میں کرونا سے 600 صحافی چل بسے
ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں گذشتہ برس کرونا وباء کے سبب 600 سے زیادہ صحافی اس دنیا فانی سے کوچ کرگئے ہیں۔ دنیا بھر میں صحافیوں کی اموات کے اعداد و شمار پر کام کرنے والی جنیوا کی غیر سرکاری تنظیم کی رپورٹ کے مطابق لاطینی امریکا میں کرونا سے سب سے زیادہ (300 سے زیادہ) صحافیوں کا انتقال ہوا۔ ایشیاء میں 145، یورپ میں 94، شمالی امریکا میں 32 اور افریقہ میں 28 صحافی کرونا کے سبب چل بسے۔
فلاحی کام کرنے والی تظیموں کا کہنا ہے کہ صحافی گھروں میں بیٹھ کر اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا نہیں کرسکتے اور فیلڈ میں پیشہ ورانہ امور کی انجام دہی میں صحافیوں کے وائرس سے متاثر ہونے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔
خبر دینے والے کئی صحافی خود خبر بن گئے، رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز
دنیا بھر میں آزادی صحافت پر نظر رکھنے والے ادارے ’رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ کے ایشیاء پیسیفک کے ترجمان ڈینئل بیسٹارڈ کا کہنا ہے کہ ’کرونا وباء نے جنوبی ایشیاء میں صحافت کو بری طرح متاثر کیا۔ لاک ڈاؤن کی خبر دینے والے کئی صحافی خود خبر بن گئے۔‘
صحافیوں کو کرونا ویکسین پروگرام میں شامل کیا جائے
کراچی یونین آف جرنلسٹس (کے یو جے) نے گذشتہ ماہ مطالبہ کیا تھا کہ صحافیوں کو بھی کرونا ویکسین پروگرام میں شامل کیا جائے کیونکہ صحافی بھی فرنٹ لائن پر رہتے ہوئے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ اب تک کئی صحافی کرونا کا شکار ہو کر انتقال کرچکے ہیں جبکہ سیکڑوں کی تعداد میں اس سے متاثر ہوئے ہیں۔
صحافیوں کو فرنٹ لائن ورکرز کے طور پر ویکسین پروگرام کے پہلے مرحلے میں ویکسین لگائی جائے تاکہ وہ آزادی کے ساتھ فرنٹ لائن سے فرائض انجام دے سکیں۔
صحافی تنظیموں نے کیا کہا؟
کراچی یونین آف جرنلسٹس (کے یو جے) کے وزیراعلیٰ سندھ کے نام خط میں کہا گیا کہ ’کرونا کے دوران دنیا بھر میں میڈیا ورکرز کو بھی لازمی ڈیوٹی دینے والے ورکرز کی فہرست میں شامل کیا گیا کیونکہ میڈیا ورکرز کے فرائض اس نوعیت کے ہیں کہ وہ چاہتے ہوئے بھی خود کو کرونا سے بچا نہیں پاتے۔ فروری 2020 میں پاکستان میں کرونا کی آمد کے بعد سے عوام کی آگاہی کے لیے صحافی فرنٹ لائن پر رہ کر کام کررہے ہیں جبکہ اسی دوران کئی شعبوں کے افراد نے گھروں سے کام کی پالیسی کو اختیار کیا لیکن اپنے کام کی نوعیت کی وجہ سے صحافیوں کے لیے یہ ممکن نہیں تھا۔ اس طرح انہوں نے نا صرف خود کو بلکہ اپنے اہلخانہ کو بھی خطرے میں ڈالا ہے۔‘
مسلم لیگ (ن) کا صحافیوں کو ویکسین کی فراہمی کا مطالبہ
مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے چند روز قبل مطالبہ کیا تھا کہ ’حکومت فوری طور پر صحافیوں کی حفاظت اور ویکسینیشن کے لیے اقدامات کرے۔ ڈاکٹرز کی طرح صحافیوں کو بھی حکومت کی جانب سے حفاظتی کٹس مہیا نہیں کی گئیں ہیں۔‘
فردوس عاشق اعوان کا وعدہ وفا نہ ہوا
کرونا وباء کے ابتدائی دنوں میں صحافتی تنظیموں کے مطالبے پر وزیر اعظم عمران خان کی اس وقت کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے یقین دہانی کرائی تھی کہ رپورٹرز اور میڈیا سے وابستہ افراد کو ذاتی حفاظت کا سامنا فراہم کیا جائے گا مگر یہ وعدہ وفا نہ ہوا۔
نیشنل پریس کلب کا حکومت سے رابطہ
نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے سیکریٹری جنرل انور رضا نے نیوز 360 سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’صحافیوں کی حفاظت کے لیے اقدامات انتہائی ضروری ہیں تاکہ وہ اس مرض سے محفوظ رہ کر فرائض سرانجام دے سکیں۔‘
یہ بھی پڑھیے
انہوں نے کہا کہ ’صحافیوں اور میڈیا ورکرز کو کرونا سے بچاؤ کی ویکسین کی فراہمی کے لیے وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز، عامر کیانی اور ڈاکٹر فیصل سلطان سے رابطہ کیا گیا ہے جبکہ وفاقی وزیر اسد عمر سے بھی اس حوالے سے جلد رابطہ کیا جائے گا۔‘
چین سے صحافیوں کے لیے ویکسین کی درخواست
انور رضا نے بتایا کہ ’چین کے سفیر کے نام وہ ایک خط بھی تحریر کررہے ہیں جس میں ان سے درخواست کی جائے گی کہ صحافیوں اور میڈیا ورکرز کے لیے کرونا ویکسین کی 5 ہزار ڈوز (خوراکیں) مہیا کی جائیں۔‘
چیئرمین پیمرا کا این سی او سی کو خط
انور رضا نے بتایا کہ ان کی درخواست پر ہی چیئرمین پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی ( پیمرا ) نے این سی او سی حکام کو خط لکھ کر صحافیوں کو ویکسین لگانے کا کہا ہے۔ چیئرمین پیمرا محمد سلیم بیگ نے صحافیوں اور فرنٹ لائن میڈیا ورکرز کو مفت کرونا ویکسین لگانے کے لیے وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان کو مراسلہ تحریر کیا ہے۔
— Report PEMRA (@reportpemra) March 26, 2021
مراسلے میں چیئرمین پیمرا نے وزارت صحت اور نیشنل کمانڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کی توجہ صحافیوں اور فرنٹ لائن میڈیا ورکرز کی طرف دلاتے ہوئے انہیں ترجیحی بنیاد پر مفت کرونا ویکسین لگانے کی درخواست کی۔ الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ افراد اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی کے باعث کرونا وائرس سے زیادہ متاثر ہورہے ہیں۔
امریکہ کی کرونا ویکسین کے حوالے سے کیا پالیسی ہے؟
امریکی ڈیسیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن نے میڈیا ورکرز کو بھی کرونا ویکسین دینے کے لیے ترجیحی بنیادوں پر فہرست میں شامل کرلیا ہے۔
صحافیوں کو ترجیحی بنیادوں پر ویکسین کیوں دی جائے؟
امریکی ادارے کے مطابق کرونا وائرس کے پیشِ نظر ہیلتھ اور میڈیا ورکرز کو ان کے پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کی مناسبت سے وائرس میں مبتلا ہوجانے کے زیادہ امکانات ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں ترجیحی بنیادوں پر ویکسین لگائی جائے گی۔
اس سے قبل امریکہ میں کرونا ویکسین پہلے مرحلے کے دوران ہیلتھ ورکرز، پولیس اور اساتذہ کو لگائی گئی تھی۔ اس کے دوسرے مرحلے کا آغاز جلد ہوگا جس میں میڈیا ورکرز کو کرونا ویکسین لگائی جائے گی۔
چین کرونا کے حوالے سے صحافیوں کو کیا سہولت دے رہا ہے؟
چین، جاپان اور دیگر ممالک کے صحافیوں کو کوویڈ-19 کی ویکسین لگائی گئی ہے۔ جاپان کی کیوڈو نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق متعدد غیرملکی صحافیوں اور ان کے خاندان کے افراد (جن کی عمریں 18 سے 59 سال کے درمیان ہیں) کو بیجنگ میں سائنو ویک ویکسین لگائی گئی جس کی قیمت 90 یوآن (13.8 امریکی ڈالرز) ہے۔ ان افراد کو ویکسین کی دوسری خوراک اپریل میں لگائی جائے گی۔
یہ بھی پڑھیے
پبلک اور ہم نیوز میں صحافیوں کی معیشت اور صحت کا استحصال
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ویکسین کا ٹیکہ لگانے سے قبل صحافیوں نے انگریزی میں تحریر کردہ ایک دستاویز پر دستخط کیے جس میں کہا گیا ہے کہ ’کوئی بھی ویکسین 100 فیصد موثر نہیں اور لوگوں کی صحت کی صورتحال ایک دوسرے سے مختلف ہونے کی وجہ سے کچھ افراد کو ویکسینیشن کے بعد بھی انفیکشن ہوسکتا ہے یا اس کی علامات پیدا ہوسکتی ہیں۔‘
ملک بھر میں کرونا کے وار
پاکستان میں گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 4 ہزار 368 نئے کیسز سامنے آئے ہیں اور 63 مریض انتقال کر گئے ہیں۔ کرونا وباء کی تشخیص کے لیے مجموعی طور پر 42 ہزار 418 ٹیسٹ کیے گئے ہیں۔ ملک میں کرونا کیسز مثبت آنے کی شرح 10.29 فیصد تک جا پہنچی ہے اور فعال کیسز بھی 40 ہزار 120 تک بڑھ گئے ہیں۔
ملک بھر میں کرونا وباء سے متاثرہ مریضوں کی تعداد 6 لاکھ 45 ہزار 356 ہوگئی ہے جبکہ انتقال کرنے والوں کی تعداد 14 ہزار 91 تک پہنچ گئی ہے۔