بڑھتے جرائم شیخ رشید کی کارکردگی پر سوالات
شیخ رشید کے وزارت داخلہ کا قلمدان سنبھالنے کے بعد سے اب تک امن و امان خراب ہونے کے 7بڑے واقعات پیش آچکے ہیں۔
شیخ رشید نے وزارت داخلہ کا قلمدان تو سنبھال لیا لیکن امن و امان کی صورتحال نہیں سنبھل پا رہے۔ اُن کے وزیر داخلہ بننے کے بعد سے اسلام آباد میں دہشت گردی کے 3 واقعات ہو چکے ہیں جبکہ مجموعی طورپر ملک میں دہشت گردی کے واقعات ہوئے ہیں۔
شیخ رشید وفاقی وزیر ریلوے کے فرائض سرانجام دے رہے تھے لیکن گزشتہ برس 11 دسمبر کو انہیں وفاقی وزیر داخلہ بنایا گیا تھا۔ شیخ رشید کے وزارت داخلہ کا قلمدان ملنے کے بعد سے ملک میں جرائم اور دہشتگردی کے واقعات میں واضح اضافہ ہوا ہے۔
واقعات کا جائزہ
پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلع برنائی میں 28 دسمبر کو ایک حملے میں 7 پاکستانی فوجیوں نے جامِ شہادت نوش کیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق باغیوں نے فرنٹیئر کورکی چوکی پر فائرنگ کی تھی۔
اس واقعے کے ٹھیک ایک روز بعد ہی وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں تھانہ آبپارہ کے علاقے میں میلوڈی مارکیٹ میں 29 دسمبر 2020 کی صبح 11 بجے جیولرز شاپ پر بظاہر ڈکیتی کی ایک واردات ہوئی۔ ایک شخص بھکاری کا روپ دھار کر دکان میں داخل ہوا۔ دکاندار ہمایوں مرزانے جب یہ کہا کہ بعد میں آنا تو اس نے اسلحہ نکال لیا۔ دکان مالک وسیم طاہر کے 12 بور سے فائر کرنے پر دکان کے باہر موجود اس کے دیگر ساتھیوں نے بھی دکان پرفائرنگ شروع کردی۔ اس واقعے میں 2 سیلزمین زخمی ہوئے لیکن ڈاکو فائرنگ کرتے ہوئے سفید رنگ کی کرولا گاڑی میں فرارہوگئے۔ زخمی ہونے والا ایک سیلزمین بعد میں زخموں کی تاب نا لاسکا اورجاں بحق ہوگیا۔ اِس واقعے میں ملوث افراد آج تک نہیں پکڑے جا سکے۔
یہ بھی پڑھیے
شیخ رشید بھی عمران خان کے نقش قدم پر
اسلام آباد میں اسی دن ایک اورافسوسناک واقعہ پیش آیا۔ جیو نیوز کے مطابق تھانہ شالیمار کے علاقے ایف ٹین میں ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر فوجی اہلکارناصراصغر کو گولی مار کر قتل کردیا گیا۔ ون ڈالر شاپ میں ہونے والی اس واردات میں چاند نامی ملزم دکان کا ملازم ہی نکلا۔ ملزم نے انکشاف کیا کہ اس نے دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر دکان لوٹنے کی منصوبہ بندی کی تھا۔ دکان کو بند کرتے وقت لوٹنا تھا۔
جبکہ دوپہر 2 بجے تھانہ رمنا کے علاقے جی 10/4 گلی نمبر 44 میں ایک جرمن شہری بینک سے پیسے نکلوا کر آرہا تھا کہ نامعلوم شخص نے رقم چھیننے کی کوشش کی۔ مزاحمت پر ڈاکوؤں نے فائرنگ کردی جس سے وہ بحق ہوگیا۔ مقتول نے اسلام قبول کرنے کے بعد مسلمان عورت سے شادی کی تھی اور 3 روز قبل ہے پاکستان آیا تھا۔
مذکورہ تینوں واقعات ایک ہی دن پیش آئے۔ ابھی خیر وعافیت سے 2 ہی دن گزرے تھے کہ 2 جنوری کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ہی ایک اور افسوسناک واقعہ پیش آیا جس کے بعد وزیر داخلہ شیخ رشید کی کارکردگی پر سوالات کیے جانے لگے ہیں۔ انسداد دہشت گردی اسکواڈ پولیس اہلکاروں کی اندھا دھن فائرنگ سے 22 سالہ نوجوان اسامہ ستی جاں بحق ہوگیا تھا۔ بعد ازاں پولیس نے واقعے کو پولیس مقابلے کا رنگ دینے کی کوشش کی لیکن اہلکاروں کا بھانڈا تب پھوٹا جب مقتول کے قبضے یا اس کی گاڑی سے اسلحہ برآمد نہیں ہوا۔
یہ بھی پڑھیے
وزیر داخلہ بنتے ہی شیخ رشید کی تصاویر سامنے آگئیں
اس واقعے کے بعد وزیر داخلہ شیخ رشید پر شدید تنقید کی جانے لگی۔ اتوار کے روز ٹوئٹر پر ‘اریسٹ شیخ رشید’ نامی ہیش ٹیگ ٹرینڈ کر رہا تھا۔ صارفین اس ہیش ٹیگ کا استعمال کرتے ہوئے شیخ رشید کی گرفتاری کا مطالبہ کر رہے تھے اوراس واقعے کی وجہ شیخ رشید کی نااہلی کو قرار دے رہے تھے۔ اسلام آباد پریس کلب کے سامنے گزشتہ روز اسامہ ستی کے قاتلوں کی گرفتاری کے لیے اور وزیر داخلہ کی برطرفی کے لیے ایک احتجاج بھی کیا گیا تھا۔
اسامہ ستی کے قتل کے بعد اگلے ہی روز پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے علاقے مچھ میں دہشتگردوں نے کوئلے کی کان میں فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں 11 کان کن جاں بحق، جبکہ متعدد زخمی ہوگئے۔ اس واقعے کے بعد وزیراعظم عمران خان، وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات شبلی فراز اور چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو سمیت کئی وزراء اور سیاسی جماعتوں کے قائدین نے مذمت کی۔
یہ تمام واقعات شیخ رشید کے وزارت داخلہ کا قلمدان سنبھالنے کے بعد پیش آئے ہیں جس سے ان کی کارکردگی پر سوالات کیے جانے لگے ہیں۔