این اے 249 کے معاملے پر صحافیوں کے ذاتی نوعیت کے حملے

ملک کے نامور صحافیوں نے بلاول بھٹو پر ذاتی اور نامناسب تبصرے کیے ہیں۔

گذشتہ دنوں پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں قومی اسمبلی کے حلقے این اے 249 کے ضمنی انتخاب میں پیپلزپارٹی کی کامیابی حاصل کی تھی۔ مسلم لیگ (ن) اور دیگر جماعتوں نے این اے 249 کے ضمنی انتخاب کے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا تاہم اب اس معاملے پر ملک کے معروف صحافیوں نے سیاسی اور ذاتی نوعیت کے تبصرے کیے ہیں۔

29 اپریل کو کراچی میں قومی اسمبلی کے حلقے این اے 249 کے لیے ضمنی انتخاب ہوا تھا جس میں پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے امیدوار قادر خان مندوخیل نے کامیابی حاصل کی تھی۔ مسلم لیگ (ن) نے اس حلقے میں اپنی شکست کے بعد انتخاب میں دھاندلی کے الزمات عائد کیے تھے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، پاک سر زمین پارٹی (پی ایس پی)، تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) اور ایم کیو ایم پاکستان نے بھی انتخابی نتائج تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

سینیٹ تا این اے 249 انتخاب، زرداری سیاست کا راج

این اے 249 پر سیاسی جماعتوں کے درمیان کھینچا تانی چل ہی رہی تھی کہ اب اس معاملے پر صحافیوں نے بھی بولنا شروع کردیا ہے۔ سینیئر صحافی رضوان رضی نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر لکھا کہ بلاول بھٹو سے جب ملک ریاض سے متعلق سوال کیا گیا تو وہ کچھ کہنے کے بجائے شرما گئے۔ جس پر جیو نیوز سے وابستہ سینیئر صحافی عبدالقیوم صدیقی نے بلاول کی ذات پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کی ادا کو امراؤ جان سے تشبیہہ دی۔

سندھ کے وزیر تعلیم سعید غنی نے اتوار کے روز ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان میں سیاسی (میچورٹی) سمجھ بوجھ کے حوالے سے بلاول بھٹو کا قد سب سے زیادہ ہے۔ سعید غنی کے اس بیان پر دی نیوز سے وابستہ سینیئر صحافی عمر چیمہ نے بلاول بھٹو کو سیاسی میچوروں کا عالم چنا کہا۔

جبکہ این اے 249 میں پیپلز پارٹی کی فتح کے بعد سینیئر صحافی اور اینکر پرسن مبشر لقمان نے لکھا کہ پی پی پی کی فتح صرف این اے 249 تک ہی محدود نہیں ہے۔ جس پر گل بخاری نے ایک جعلی (ایڈٹ کی ہوئی) تصویر شیئر کی جس میں بلاول بھٹو اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ایک ساتھ موجود ہیں۔ اس تصویر کے ساتھ انہوں نے لکھا کہ مارکیٹ میں نیا میلا بے بی۔

این اے 249 کے ضمنی انتخاب کے نتائج پر سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر بیان بازی کر ہی رہی تھیں کہ اب صحافی بھی اس معاملے پر پیچھے نہیں رہے۔ زیادہ تر صحافیوں نے بلاول بھٹو کو برا بھلا کہا ہے۔ عوام اور سیاستدانوں کو اصولوں کا درس دینے والے اِن صحافیوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ کسی کی ذات پر بیان بازی صحافتی اصولوں کے خلاف ہے۔ اس طرح کے تبصرے نہ سیاست کے لیے اچھے ہیں اور نہ ہی صحافت کے لیے۔

متعلقہ تحاریر