گورنر اسٹیٹ بینک نے کمرشل بینکوں کے لیے قرضوں کا نیا ہدف مقرر کردیا

ڈاکٹر رضا باقر کا کہنا ہے قرضہ جاتی معیار، اس کے جغرافیائی عدم توازن اور قرض گیروں کے مختلف زمروں میں غیر مساوی تقسیم سے نمٹنے کی شدید ضرورت ہے۔

گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر رضا باقر کی جانب سے مالی سال 21ء میں 1.3 ٹریلین روپے سے زائد کا زرعی قرضہ فراہم کرنے پر بینکوں کی تعریف کرتے ہوئے ، مالی سال 22ء کے لیے 1.7 ٹریلین روپے کا ہدف مقرر کردیا ہے۔

گورنر بینک دولت پاکستان ڈاکٹر رضا باقر نے آج ملتان میں ایگری کلچرل کریڈٹ ایڈوائزری کمیٹی (ACAC) کے اجلاس کی صدارت کی۔ انہوں نے مالی سال21ء میں 1.4 ٹریلین روپے کے زرعی قرضوں کی غیر معمولی سطح کے حصول پر بینکوں کی کارکردگی کو سراہا۔

یہ بھی پڑھیے

عالمی بینک نے پاکستان کے لئے 10 کروڑ 95 لاکھ ڈالر قرض کی منظوری دے دی

ملک کا مالیاتی نظام دوبارہ ترتیب دینا ہوگا، شبر زیدی

انہوں نے کہا کہ کووڈ 19 وبا کے چیلنجوں کے باوجود ACAC کی رہنمائی میں 50 مالی اداروں کی مشترکہ کوششوں  سے مقررہ ہدف کا 91 فیصد تک حاصل کرنا قابل تعریف ہے۔

اپنے افتتاحی خطاب میں انہوں نے زور دیا کہ اب بینکوں کی قیادت اس سفر کو تزویراتی تبدیلی اور اسٹیٹ بینک کے اہم پالیسی اقدامات کے مطابق زرعی قرضوں میں معیاری بہتری لانے کے اگلے مرحلے تک لے جا سکتی ہے۔ رواں سال کے لیے 5 ملین قرض گیروں (borrowers) کے ساتھ 1.7 ٹریلین روپے کے زرعی قرضے کے ہدف کا اعلان کرتے ہوئے انہوں نے قرضہ جاتی معیار، اس کے جغرافیائی عدم توازن اور قرض گیروں کے مختلف زمروں میں غیر مساوی تقسیم سے نمٹنے کی شدید ضرورت کو اجاگر کیا۔

اس موقع پر گورنر نے زرعی قرضوں میں اضافے میں اعانت کے لیے دو نئے اقدامات کا اعلان کیا۔ پہلا، زرعی قرضوں کے اہم اظہاریوں (indictors) اور اہداف کے مطابق بینکوں کی درجہ بندی کا ایک جامع اسکورنگ ماڈل۔ مسابقتی ماحول کو فروغ دینے کے لیے اچھی کارکردگی دکھانے والے بینکوں کی خدمات کا اعتراف کا کیا جائے گا، جبکہ کم کارکردگی دکھانے والے بینکوں کی مضبوطی سے حوصلہ افزائی کی جائے گی کہ وہ ان میٹرکس پر توجہ مرکوز کریں جہاں بہتری کی ضرورت ہے۔ دوسرے اقدام میں ایک بینک کو نامزد کیا جاتا ہے جو  کم مالی خدمات والے صوبے/علاقے میں چیمپئن/لیڈ بینک کے طور پر کام کرنے پر آمادہ ہو۔ اس ضمن میں مزید اقدامات میں کم مالی خدمات والے علاقوں میں کاشت کاروں کو سہولت دینے کے لیے ہیلپ ڈیسکوں کا قیام اور جامع رسائی کے لیے برہدف اور مشترکہ آگاہی مہمات شروع کرنا شامل ہیں۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کا وژن دو سطح کے مقاصد کی تکمیل کرے گا؛ کاشت کاروں کی مالی شمولیت بڑھانا اور  بینکوں کو مزید قرضے دینے کے مواقع فراہم کرنا۔

ملتان میں ایگری کلچرل کریڈٹ ایڈوائزری کمیٹی کا اجلاس منعقد کرنے کے حوالے سے گورنر نے یہ بات خاص طور پر اجاگر کی کہ اِس علاقے میں زراعت کے زبردست امکانات اور زرعی قرضے کی توسیع کے بہت مواقع ہیں۔ بعد میں زرعی قرضے کے اجرا میں بینکوں کی کارکردگی پر ایک پریزنٹیشن دی گئی۔

کمیٹی نے زرعی قرضوں میں نئی جہتوں پر، خصوصاً ماحول کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے زراعت کے اسمارٹ طریقوں اور ان میں مالی اداروں کے ممکنہ کردار پر غوروخوض کیا۔

مزید برآں، کمیٹی نے ملک بھر میں زرعی قرضے کے موجودہ انفرا سٹرکچر کی کارکردگی بڑھانے کے طریقوں پر بھی بحث کی۔ کمیٹی کے دوسرے سیشن میں منتخب بینکوں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کی طرف سے نئے اور جدّت طراز خیالات پیش کیے گئے جو اِن شعبوں سے متعلق تھے۔ (1) ویلیو چین سلوشن، (2) الیکٹرانک ویئرہاؤس ریسیٹ فنانسنگ، (3) ڈجیٹل لون آرگنائزیشن سسٹم اور (4) باغبانی ویلیو چین فنانسنگ۔ کمیٹی نے ان نئی تجاویز کو منظور کرتے ہوئے تجرباتی منصوبوں کو وسعت دینے کے لیے اہداف مقرر کیے۔

ایگری کلچرل کریڈٹ ایڈوائزری کمیٹی کے اجلاس میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے سینئر حکام، بینکوں کے صدور اور سی ای او حضرات، صوبائی ایوان ہائے زراعت کے ارکان، ترقی پسند کاشت کاروں، کاشت کار طبقوں کے علاقائی نمائندوں اور اسٹیٹ بینک کے سینئر افسران نے شرکت کی۔

متعلقہ تحاریر