علی ظفر جیلوں میں قید خواتین کی آواز بن گئے

خیرانساء صاحبہ کے مطابق یہ خیال غلط ہے کہ خواتین کے ساتھ جیلوں میں زیادتی کے واقعات پیش آتے ہیں۔

پاکستان کے معروف گلوکار علی ظفر نے ملک کی جیلوں میں قید اور مفلوک الحال خواتین کی مدد کرنے کی ٹھان لی ہے۔ عالمی یوم خواتین پر گلوکار نے کہا کہ وہ انصاف اور آزادی کی جنگ لڑنے کے لیے تیار ہیں۔ اس حوالے سے نیوز 360 نے این جی او ویمن ایڈ ٹرسٹ سے تعلق رکھنے والی خیرانساء صاحبہ سے خصوصی گفتگو بھی کی ہے۔

علی ظفر اکثر و بیشتر معاشرتی مسائل پر روشنی ڈالتے رہتے ہیں لیکن اس مرتبہ وہ جس مسئلے کو زیر بحث لائے ہیں وہ واقعی توجہ طلب ہے۔

گذشتہ روز عالمی یوم خواتین کے موقعے پر علی ظفر نے نجی ٹیلی ٹی وی اے آر وائی کے پروگرام سرعام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قانونی نمائندگی نہ ہونے کی وجہ سے متعدد غریب اور بےگناہ خواتین برسوں سے جیلوں میں قید ہیں اور کسی نہ کسی کردہ یا ناکردہ جرم کی سزا کاٹ رہی ہیں۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر علی ظفر نے اعلان کیا کہ وہ اپنی عاجزانہ صلاحیت کے مطابق ایسی تمام خواتین کو انصاف دلانے کی بھرپور کوشش کریں گے۔ آزادی کی اس جنگ کو لڑنے کے لیے مالی مدد بھی درکار ہوگی لیکن اگر لوگ ان کا ساتھ دیں گے تو اس کام کو مذید بہتر انداز سے کیا جاسکے گا۔

علی ظفر نے اس حوالے سے ٹوئٹ میں علی ظفر فاؤنڈیشن کے ٹوئٹر ہینڈل کا لنک شیئر کیا۔ فاؤنڈیشن کی ویب سائٹ کے ذریعے عطیات جمع کرائے جاسکتے ہیں۔

پاکستان کی وزارت انسانی حقوق کی جانب سے شائع کردہ رپورٹ کے مطابق جیلوں میں خواتین طبی سہولیات کی عدم فراہمی کے باعث نہایت مشکل صورتحال سے دوچار ہیں۔ رپورٹ میں وزارت نے حکومت سے خواتین کی جیلوں میں مناسب دیکھ بھال اور بدسلوکی کے خاتمے کے لئے سفارشات بھی دی ہیں۔

26 اگست 2020 کو وزیر اعظم عمران خان کو پیش کی گئی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2020  کے وسط تک پاکستان کی جیلوں میں ایک ہزار 121 خواتین قید رہیں جن میں 66 فیصد مجرم قرار نہیں پائی گئیں لیکن مقدمے کی سماعتوں کے اختتام کے انتظار کی وجہ سے حراست میں رہیں ۔300 سے زیادہ خواتین ایسی بھی ہیں جن کو ان کے گھر والوں سے ملاقات کی اجازت نہیں ملی۔ جیلوں میں 60 سال سے زائد عمر کی خواتین قیدیوں کی تعداد 46 ہے جبکہ 18 سال سے کم عمر کی 10 لڑکیاں بھی مختلف جیلوں میں موجود ہیں۔ ان تمام خواتین کی صحت کی دیکھ بھال کے لیے پورے ملک میں صرف اور صرف 24 خاتون ہیلتھ ورکرز موجود ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

معاشی شعبے میں کامیابیاں حاصل کرنے والی پاکستانی خواتین

اسی موضوع پر نیوز 360 سے گفتگو میں این جی او ویمن ایڈ ٹرسٹ سے تعلق رکھنے والی خیرانساء  نے کہا کہ ہمارے  یہاں جیلوں میں بہت سے خواتین ایسی ہیں جو کہ چھوٹے چھوٹے جرائم میں قید ہیں لیکن ان کے کیسوں کی سماعتوں کی تاریخ نہ ملنے کے باعث حراست میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس نظام میں بہتری لائی جانے کی ضرورت ہے۔

خیرانساء  کے مطابق یہ خیال بالکل غلط ہے کہ خواتین جیلوں میں لائے جانے کے بعد امید سے ہوجاتی ہیں یا ان کے ساتھ جیل میں زیادتی کے واقعات پیش آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ برسوں کے تجربے میں انہوں نے نہ تو ایسا کبھی کوئی واقعہ دیکھا نا سنا ہے۔

متعلقہ تحاریر