صحافیوں کے تحفظ اور نفسیاتی مسائل کون حل کرے گا؟
ٹریننگ کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ کرپشن، سیاسی بیٹ اور کرائم رپورٹنگ کرنے والوں صحافیوں کو دیگر صحافیوں کے مقابلے میں زیادہ خطرناک صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
دنیا بھر میں 1992سےلیکر اب تک 1387صحافیوں کو مختلف وجوہات کی بنا پر قتل کیا جا چکا ہے جن میں پاکستانی صحافیوں کی تعداد 61 ہے۔
یہ بات سینٹر فار پیس اینڈ ڈیویلپمنٹ انیشیٹو (سی پی ڈی آئی) کے زیر اہتمام اور یورپی یونین کے مالی تعاون سے پشاور کےمقامی ہوٹل میں صحافیوں کے تحفظ، ڈیجٹیل سکیورٹی اور نفسیاتی و سماجی معاونت کے عنوان سےمنعقد شدہ تین روزہ ورکشاپ کے شرکاء کو بتائی گئی۔
یہ بھی پڑھیے
مالکان کے حق میں متحد پی بی اے ملازمین کے معاملے میں منقسم کیوں؟
اس تربیتی ورکشاپ میں صحافیوں نے بھر پور شرکت کی جن میں پشاورسمیت خیبر پختونخواہ کے مختلف، بشمول نئے ضم شدہ، اضلاع سے تعلق رکھنے والے صحافی جن میں خواتین بھی شامل تھیں۔
ٹریننگ کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ کرپشن، سیاسی بیٹ اور کرائم رپورٹنگ کرنے والوں صحافیوں کو دیگر صحافیوں کے مقابلے میں زیادہ خطرناک صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دنیا میں صحافتی پیشے کے لئے خطرناک ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔ صحافت پاکستان کے خطرناک پیشوں میں سے ایک پیشہ ہے۔
دوسری جانب صحافیوں اور فری لانسرز کو میڈیا کے ادارے اور اخبارات محدود وسائل کی وجہ سے مناسب تحفظ، تربیت اور سیکیورٹی فراہم نہیں کرسکتے۔ مزید صحافیوں کے تحفظ اور ان کے خلاف جرائم کرنے والے مجرموں میں سزا سے بے خوفی کا مسلہ بھی بڑی حد تک حکومت کی فوری توجہ کا متقاضی ہے۔
صحافیوں کے تحفظ کے لئے فوری اور موثر قانون سازی وقت کی ضرورت اور اس پیشے کے تقدس کو برقرار رکھنے کے لئے لازم ہے۔ انہی حالات کو مدنظر رکھتے ہو ئے سی پی ڈی آئی نے یورپی یونین کے مالی معاونت سے جاری کردہ پراجیکٹ سول سوسائٹی فار انڈیپینڈنٹ میڈیا اینڈ ایکسپریشن (سائم) میں، آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے، اظہار رائے کی آزادی کو یقینی بنانے کےلئے صحافیوں کی تربیت کو اولین ترجیح دی گئی ہے۔
مذکورہ تربیتی نشست تین دن کے دورانیئے پر مبنی تھی اور یہ پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں مرحلہ وار منعقد کی جائے گی۔ انہی تربیتی نشستوں کی پہلی ٹریننگ 3-4-5 نومبر کو اسلام آباد میں منعقد کی گئی تھی ، دوسری نشست لاہور میں جبکہ تیسری نشست پشاور میں مکمل ہو ئی۔