صوبائی وزیر کی نجی جیل میں تین افراد کا لرزہ خیز قتل: ریاست کے منہ پر طماچہ
سردار عبدالرحمان کھیتران نے اپنے اوپر لگنے والے الزامات کی تردید کرتے ہوئے اسے اپنے خلاف سازش قرار دیا ہے اور سازش میں اپنے بیٹے انعام کھیتران کے شامل ہونے کا الزام لگایا ہے۔
بلوچستان کے علاقے بارکھان میں تین افراد کی لاشوں کے معاملے مزید الجھنے لگا ، لواحقین کا دھرنا وزیراعلیٰ ہاؤس کے سامنے دوسرے روز بھی جاری ، سردار عبدالرحمان کھیتران پر قتل کا الزام ، صوبائی وزیر کو گرفتار کرنے کا مطالبہ زور پکڑنے لگا۔ بلوچستان حکومت نے تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دے دی ، کمیٹی 30 روز میں اپنی رپورٹ پیش کرےگی۔
بارکھان واقعے پر مشاورت کے لیے قبائلی جرگہ آج طلب کرلیا گیا ہے۔ خان محمد مری کے دیگر پانچ بچوں کی بازیابی کے لیے صوبائی وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران کے گھر پر پولیس کی بھاری نفری نے چھاپہ مارا ہے ، چھاپے کے دوران مہمان خانے اور گھر کے دیگر حصوں کی تلاشی بھی لی گئی۔
یہ بھی پڑھیے
فواد چوہدری اور اسد عمر کا چیئرمین نیب کی تقرری کیلئے پی ٹی آئی سے مشاورت کا مطالبہ
وزیراعلیٰ بلوچستان سردار عبدالقدوس بزنجو نے مغویہ کی بحفاظت بازیابی اور ملوث ملزمان کی گرفتاری کی ہدایت کردی ہے۔
صوبائی وزیر عبدالرحمان کھیتران کا موقف
دوسری جانب عدالرحمان کھیتران کے بیٹے نے نجی عقوبت خانے میں قید بچوں کی تصاویر سوشل میڈیا پر جاری کردی ہیں۔ انعام کھیتران نے دعویٰ کیا ہے کہ خان محمد مری کی ایک بیٹی بارکھان والے گھر جبکہ دیگر چار بیٹے کوئٹہ والے گھر میں ہیں۔
خان محمد مری کا کہنا ہے کہ "یہ میری بیوی اور دو بیٹوں کی لاشیں ہیں جنہیں حاجی کوٹ کی ایک نجی جیل میں گزشتہ چار سالوں سے رکھا گیا تھا۔” لاشوں کی شناخت 40 سالہ گراناز ، 22 سالہ محمد انور اور 15 سالہ عبدالقادر کے ناموں سے ہوئی ہے۔
خان محمد مری صوبائی وزیر عبدالرحمان کھیتران کے سیکورٹی گارڈ کے طور پر خدمات سرانجام دیے چکے ہیں۔ انہوں نے الزام لگایا ہے کہ اس کی بیوی اور بیٹوں کو سردار کھیتران کی نجی جیل میں رکھا گیا ہے، اس نے مزید کہا ہے کہ اس کے مزید پانچ بچے کھیتران کی نجی جیل میں ہیں جن میں 13 سالہ بیٹی بھی شامل ہے۔
دوسری جانب سردار عبدالرحمان کھیتران نے اس الزام کی تردید کرتے ہوئے اسے اپنے خلاف سازش قرار دیا ہے۔ سردار کھیتران کا کہنا ہے کہ یہ سازش انہیں کھیتران قبیلے کے قبائلی سربراہ کے طور پر بدنام کرنے اور قبیلے کی سرداری سے ہٹانے کی کوشش ہے۔
سردار کھیتران کا کہنا تھا کہ لاشیں ان کے آبائی گاؤں سے ڈیڑھ کلومیٹر دور ملی ہیں جب کہ وہ بارکھان میں بھی نہیں تھے اور ایک ہفتے سے زائد عرصے سے کوئٹہ میں تھے۔
سردار کھیتران کا کہنا ہے میرے خلاف جو سازش تیار کی گئی ہے اور جو ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ہے اس میں میرا بیٹا انعام شاہ کھیتران شامل ہے۔ ان کا کہنا تھا جب انتخابات قریب آتے ہیں تو ان پر ہمیشہ اس قسم کے الزامات لگائے جاتے ہیں۔
پی پی آئی کی ایک رپورٹ کے مطابق بارکھان کی نجی جیل سے مبینہ طور پر نظر بندی کے بعد قتل ہونے والے تین افراد کے ورثاء منگل کے روز سے ڈپٹی کمشنر آفس کے باہر لاشوں کے ہمراہ احتجاج کر رہے ہیں۔
ادھر عبدالرحمان کھیتران کے بیٹے انعام شاہ نے اپنے والد کے الزامات کی تردید کی ہے اور تصدیق کی کہ جن تین افراد کی لاشیں کنویں سے برآمد ہوئی ہیں انہیں ان کے والد کی "نجی جیل” میں رکھا گیا تھا۔
منگل کی رات دیر گئے، ایس ایس پی محمد آصف کی سربراہی میں پولیس اور سیکورٹی فورسز کی بھاری نفری نے پٹیل باغ کے علاقے میں سردار کھیتران کے بنگلے اور گیسٹ ہاؤس کو گھیرے میں لے لیا اور خواتین پولیس اہلکاروں کے ہمراہ تلاشی لی۔
پولیس کے مطابق چھاپے کے دوران ہر کمرے، تہہ خانے اور گیسٹ ہاؤس کی تلاشی لی گئی۔ تاہم پریس کانفرس میں بتایا گیا کہ چھاپے کے دوران کوئی مشکوک شے برآمد نہیں ہوئی۔ سرچ آپریشن کے دوران سردار عبدالرحمان کھیتران بھی موجود نہیں تھے۔
دریافت اور احتجاج
کنویں میں تینوں لاشوں کی موجودگی کی اطلاع مقامی لوگوں نے حکام کو دی تھی جس کے بعد لیویز اہلکار اور دیگر سیکورٹی اہلکار جائے وقوعہ پر پہنچ گئے اور لاشوں کو کنویں سے نکالا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ نامعلوم افراد نے ماں اور اس کے دو بیٹوں کو قتل کرنے کے بعد لاشیں گہرے کنویں میں پھینک دیں۔ کوہلو میں اسپتال کے حکام نے لاشوں کا معائنہ کرنے کے بعد بتایا کہ لاشوں کی کھوپڑیوں میں گولیوں کے زخم تھے اور تشدد کے نشانات تھے، جو ان کی موت کی وجہ بتاتے ہیں۔
اسپتال کی انتظامیہ کا کہنا تھا کہ قتل ہونے والے افراد کے ہاتھ اور پاؤں رسیوں سے بندھے ہوئے تھے جبکہ خاتون کا چہرہ کچلا گیا تھا۔
لرزہ خیز انکشاف کے بعد متوفی کے ورثا نعشیں لے کر کوہلو پہنچے جہاں سینکڑوں افراد نے ان کی نماز جنازہ ادا کی۔ بعد ازاں مری قبیلے کے سینکڑوں افراد ایک بڑے جلوس کی صورت میں تابوتوں کو لے کر کوئٹہ پہنچے۔
کوئٹہ کے ریڈ زون میں پہنچ کر مظاہرین نے اعلان کیا کہ جب تک وزیر اعظم شہباز شریف ان سے ملاقات نہیں کریں اور ملزمان کی گرفتاری کا اعلان نہیں گے وہ اپنا مظاہرہ ختم نہیں کریں گے اور نہ ہی لاشوں کو دفن کریں گے۔
اسمبلی میں بازگشت
دریں اثناء بلوچستان اسمبلی میں بھی اس معاملے کی گونج سنائی دی گئی ، جہاں وزیر خزانہ اور اپوزیشن ارکان نے خاتون اور اس کے دو بیٹوں کو اس طرح ظالمانہ انداز میں قتل کرنے کی شدید مذمت کی۔
میر عارف جان محمد حسنی نے پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرتے ہوئے اسے ایک غیر انسانی فعل قرار دیا ، ان کا کہنا تھا کہ یہ ہمارے دین اور قبائلی رسم و رواج کے بھی خلاف ہے۔
وزیر تعلیم میر نصیب اللہ مری نے ایوان سے واک آؤٹ کیا اور اس وحشیانہ فعل میں ملوث افراد کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔
میر نصیب اللہ مری نے کہا کہ کسی نے نوٹس نہیں لیا اور اس خاتون کی مدد نہیں کی، جس نے ایک ویڈیو کے ذریعے حکومت اور معاشرے سے اپنی جان بچانے کی درخواست کی تھی ، جبکہ خاتون نے ہاتھ میں قرآن پاک پکڑ رکھا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہم سب اس سانحے کے ذمہ دار ہیں کیونکہ ہم اس کی درخواست پر خاموش رہے۔
انہوں نے کہا کہ واقعے میں ملوث افراد کی گرفتاری کے لیے تمام اقدامات کیے جائیں۔ انہوں نے خان محمد مری کے باقی پانچ بچوں کی بازیابی کے لیے بھی فوری اقدامات کا مطالبہ کیا جو تاحال نجی جیل میں ہیں اور چیف جسٹس آف بلوچستان سے واقعے کا نوٹس لینے کی درخواست کی۔
وزیر داخلہ نے ایوان کو بتایا کہ ڈی آئی جی لورالائی کی سربراہی میں 5 رکنی جے آئی ٹی تشکیل دی گئی ہے جو 30 دن میں اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔