وزیراعظم شہباز شریف کا صدر مملکت کے خط کا سخت الفاظ میں جواب
شہباز شریف نے ڈاکٹر عارف علوی کے خط کے جواب میں لکھے گئے خط میں سخت زبان کا استعمال کیا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے خط کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ آپ کا خط آپ کے آئینی منصب کا آئینہ دار نہیں ہے۔ وزیراعظم نے کہا ہے کہ آپ کا خط تحریک انصاف کی پریس ریلیز دکھائی دیتا ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کو شیوا نہیں دیتا کہ وہ صدر مملکت کے ساتھ اس لب و لہجے میں مخاطب ہوں ، صدر کا عہدہ آئین پاکستان کے تحفظ کی ضمانت ہوتا ہے۔ وزیراعظم نے اپنے خط میں صدر مملکت کو ایک سیاسی پارٹی کا کارکن ثابت کرنے کی کوشش ہے جو سراسر زیادتی ہے ، کیونکہ صدر کا عہدہ بالکل غیرجانبدار ہوتا ہے۔
تفصیلات کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے پانچ صفحات پر مشتمل صدر مملکت ڈاکٹر عارف کو سخت الفاظ میں ان کے خط کا جواب دیا ہے۔ وزیراعظم نے اپنے خط میں کہا ہے کہ آپ مسلسل یہی کررہے ہیں ، آپ نے 3 اپریل 2022 کو قومی اسمبلی تحلیل کرکے سابق وزیراعظم کی غیرآئینی ہدایت پر عمل درآمد کیا۔ قومی اسمبلی کے تحلیل کے آپ کے حکم کو سپریم کورٹ نے 7 اپریل کو غیرآئینی قرار دیا تھا۔
یہ بھی پڑھیے
عدلیہ کو پیغام دیتا ہوں قوم آپ کے ساتھ کھڑی ہے، عمران خان
قصور میں مفت آٹے کے اسٹال کرپشن کے گڑھ میں تبدیل؛ شہری خوار ہوگئے
خط کے متن میں مزید کہا گیا ہے کہ آپ کا خط یکطرفہ ، حکومت مخالف خیالات کا حامل ہے۔ وزیراعظم کی جانب سے خط میں کہا گیا ہے کہ بطور وزیراعظم میرے حلف کے معاملے میں بھی آپ اپنا آئینی فرض نبھانے ناکام رہے۔ کئی مواقع پر آپ منتخب حکومت کے خلاف فعال انداز میں کام کرتے آرہے ہیں۔ میں آپ کے ساتھ اچھا ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرنے کی پوری کوشش کی ہے۔
شہباز شریف نے مزید لکھا ہے کہ آپ نے اپنے خط میں جو لب و لہجہ استعمال کیا ، میں اسی لہجے میں آپ کو جواب دینے پر مجبور ہوا ہوں۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا آپ کا حوالہ ایک جماعت کی سیاست دانوں اور کارکنان کے حوالے سے ہے۔
خط کے متن کے مطابق آئین کے آرٹیکل 10 اے اور 4 کے تحت آئین اور قانون کا مطلوبہ تحفظ ان تمام افراد کو دیا گیا ہے۔ اداروں نے قانون اور امن عامہ نفاذ کے مطلوبہ ضابطوں پر سختی سے عمل کیا ہے۔ تمام افراد نے قانون کے مطابق دادرسی کے مطلوبہ فارم سے رجوع کیا ، جماعتی وابستگی کے سبب آپ نے آئین اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملوں کو یکسر فراموش کردیا ہے۔
خط میں مزید لکھا ہے کہ آپ نے نجی اور سرکاری املاک توڑ پھوڑ ، افراتفری پیدا کرنے کی کوششوں بھی نظرانداز کیا ہے۔ پی ٹی آئی کی ملک کو ڈیفالٹ کے کنارے لانے کوششوں کو بھی نظرانداز کیا ہے۔
وزیراعظم نے اپنے خط میں کہا ہے کہ پی ٹی آئی نے آئین ، انسانی حقوق اور جمہوریت کے مستقبل سے متعلق پاکستان کی عالمی ساکھ کو خراب کیا ہے۔ آپ نے بطور صدر ایک بار بھی عمران خان کی عدالتی حکم عدولی اور تکمیل کرانے والوں پر حملوں کی مذمت نہیں کی۔ عدالت کے حکم کے خلاف کسی سیاسی جماعت کی طرف سے ایسے عسکریت پسندی پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔
خط میں لکھا ہے کہ ہماری حکومت آئین کے آرٹیکل 19 کے مطابق آزادی اظہار پر مکمل یقین رکھتی ہے ، یہ آزادی آئین کے حدود اور قیود میں استعمال کرنے کی اجازت ہے۔ جب پی ٹی آئی اقتدار میں تھی تو آپ نے کبھی اس بارے میں آواز بلند نہیں کی تھی۔ آپ کی توجہ ہیومن رائٹ واچ کی سالانہ ورلڈ رپورٹ 2022 طرف دلاتا ہوں ، پی ٹی آئی اس وقت اقتدار میں تھی ، اس رپورٹ میں لکھا ہے کہ حکومت پاکستان میڈیا کو کنٹرول کرنے کی کوششیں تیز کرچکی ہے، رپورٹ میں لکھا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت اختلاف رائے کو کچل رہی ہے ، رپورٹ میں صحافیوں ، سول سوسائیٹی اور سیاسی مخالفین کو ہراساں کرنے ، قیدوبند کی صوبتیں اور نشانہ بنانے کی تمام تفصیلات درج ہیں۔
وزیراعظم نے اپنے خط میں یہ بھی کہا ہے کہ اس رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی حکومت کے دور میں انسانی حقوق کا قومی کمیشن معطل رہا۔ قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کی رپورٹ پی ٹی آئی حکومت پر فردجرم عائد ہے۔ انسانی حقوق کے عالمی اداروں می متعدد رپورٹس میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف ورزیوں کا ریکارڈ موجود ہے۔
خط میں لکھا گیا ہے کہ رکن قومی اسمبلی رانا ثناء اللہ پر منشیات کا جھوٹا مقدمہ بنایا گیا ، جس کی سزا موت ہے ، پی ٹی آئی حکومت نے مرد و خواتین اراکین پارلیمان کو قیدوبند اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نشانہ بنایا۔ ایک سابق وزیراعظم کے خاندان کی خاتون رکن کو بھی معاف نہ کیا گیا ، سیاسی مخالفین کا صفایا کرنے کے لیے نیب کو استعمال کیا گیا۔ افسوس بطور صدر آپ نے ایک بار بھی ان میں سے کسی بھی واقعے پر آواز بلند نہیں کی۔