الیکشن کمیشن اور وزارت خزانہ کے بعد وزارت دفاع بھی انتخابات 8 اکتوبر کو چاہتی ہے

وزارت دفاع نے سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں کہا ہے کہ مسلح افواج اکتوبر تک انتخابی ڈیوٹی کے لیے دستیاب ہوں گی۔

وزارت خزانہ اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے بعد وزارت دفاع نے بھی سپریم کورٹ آف پاکستان سے 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کرانے کا حکم واپس لینے کی استدعا کردی۔ یہ استدعا آئی ایس آئی چیف اور ایم آئی چیف کی چیف جسٹس آف پاکستان سے ملاقات کے بعد سامنے آئی ہے۔ وزارت دفاع کے مراسلے میں سپریم کورٹ سے 8 اکتوبر کو انتخابات کرانے کی استدعا کی ہے، واضح رہے سپریم کورٹ اپنی تمام سماعتوں میں یہ سوال اٹھا چکی ہے کہ 8 اکتوبر تک ایسا کیا ہو جائے گا کہ سیکورٹی کی صورتحال خراب نہیں ہوگی؟۔

وزارت دفاع کا سپریم کورٹ کے نام مراسلہ

تفصیلات کے مطابق وزارت دفاع کی جانب سے سپریم کورٹ سے ملک بھر میں ایک ہی ساتھ عام انتخابات کرانے کی درخواست کی ہے۔

وزارت دفاع ملک میں عام انتخابات کے لیے سیکورٹی فراہم کرنے کی مجاز اتھارٹی ہے۔ عدالت میں دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ قومی اور تمام صوبائی اسمبلیوں کے عام انتخابات ایک ساتھ کرائے جائیں، یعنی قومی اور سندھ اور بلوچستان اسمبلیوں کی مدت پوری ہونے کے بعد ایک ساتھ کرائے جائیں۔

یہ بھی پڑھیے

سیاستدانوں کا فرض ہے کہ وہ عوام کو طاقتور بنائیں، سید خورشید شاہ

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کے آئین میں ایسی کوئی شق موجود نہیں۔

یہ درخواست الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) ، اسٹیٹ بینک اور وزارت خزانہ کی جانب سے عدالت عظمیٰ میں اپنی رپورٹس جمع کرانے کے چند گھنٹے بعد سامنے آئی ہے۔

وزارت دفاع نے سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں کہا ہے کہ مسلح افواج اکتوبر تک انتخابی ڈیوٹی کے لیے دستیاب ہوں گی۔

رپورٹ میں زیادہ تر وہی اعتراضات اٹھائے گئے ہیں جو انٹر سروسز انٹیلی جنس کے سربراہ، ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز اور سیکرٹری دفاع نے پیر کے روز ان کیمرہ بریفنگ کے دوران چیف جسٹس اور دیگر دو ججوں کے سامنے پیش کیے تھے۔

الیکشن کمیشن کا سپریم کورٹ کے نام خط

گذشتہ روز الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی سربمہر رپورٹ کہا گیا تھا کہ پنجاب میں عام انتخابات کے لیے فنڈز اور سیکورٹی کی عدم فراہمی سے 14 مئی کو انتخابات ناممکن ہوتے جارہے ہیں۔ پاک فوج ، ایف سی اور رینجرز کے لیے وزارت دفاع کو خط لکھا جس کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

الیکشن کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ بیلٹ پیپر کی چھپائی کے لیے رقم دینے کی آخری تاریخ گزر گئی ہے ، تصاویر والی انتخابی فہرستوں کی چھپائی میں پہلے ہی تاخیر ہو چکی ہے ، بروقت چھپائی نہ ہوئی تو ہم ذمہ دار نہیں۔

الیکشن کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پنجاب میں عام انتخابات کے لیے 4 لاکھ 66 ہزار سیکورٹی اہلکار درکار ہیں، جبکہ پنجاب کی نگراں حکومت صرف 81 ہزار اہلکار فراہم کررہی ہے۔

ای سی پی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری شفاف انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانا ہے۔ 8 اکتوبر کو انتخابات کرانے کا فیصلہ زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے کیا گیا۔ 8 اکتوبر سے پہلے انتخابات ہوئے تو افراتفری اور انارکی پھیلنے کا خدشہ ہے۔ الیکشن کمیشن یہ ذمہ داری اٹھانے کو تیار نہیں۔

اسٹیٹ بینک اور وزارت خزانہ کا مراسلہ

اسٹیٹ بینک اور وزارت خزانہ نے سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹس میں بتایا ہے کہ رواں سال جنوری میں اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کے لیے فنڈز دستیاب نہیں تھے۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ نے 5 اپریل کو الیکشن کمیشن آف پاکستان کو پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کرانے کا حکم دیا تھا۔وفاقی حکومت کو 10 اپریل تک انتخابات کے انعقاد کے لیے 21 ارب روپے کے فنڈز جاری کرنے کی بھی ہدایت کی گئی تھی۔ اُدھر تحریک انصاف نے انتخابات میں تاخیر کے خلاف عدالت سے رجوع کر لیا۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ سپریم کورٹ اس درخواست پر کیا جواب دیتی ہے اور ملک میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کو یقینی بنانے کے لیے کیا اقدامات کیے جاسکتے ہیں۔

متعلقہ تحاریر