سپریم کورٹ اختیاراتی ایکٹ: حکومت کی فل کورٹ بنانے کی درخواست دائر
وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ میں دائر درخواستوں پر 8 صفحات پر مشتمل جواب جمع کرادیا۔
اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان اور چیف جسٹس کے اختیارات سے متعلق کیس میں اہم پیش رفت ہوئی ہے، وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرل قانون کے خلاف دائر درخواستوں کو مسترد کرنے اور کیس کی سماعت کے لیے فل کورٹ بنانے کی استدعا کی۔
وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ میں دائر درخواستوں پر آٹھ صفحات پر مشتمل جواب جمع کراتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ قانون کے خلاف درخواستیں انصاف کے عمل میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش ہیں، قانون کو چیلنج کرنے والے درخواست گزاروں کی نیت صاف نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیے
پاکستان اور چین کا سی پیک کے ذریعے اعلیٰ معیار کی ترقی کے عزم کا اعادہ
کالعدم ٹی ٹی پی کی اے آر وائے اور ڈان نیوز کو دھمکی؛ ادارہ جاتی پالیسی تبدیل کرنے کی ہدایت
وفاقی حکومت کی جانب سے دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیارات پر کوئی قدغن نہیں لگائی جاسکتی ، ماسٹر آف روسٹر کے تصور کو قانونی تحفظ حاصل نہیں، نیا قانون آئین کے آرٹیکل 184/3 کے تحت چیف جسٹس کے اختیارات اور اختیارات کو ریگولیٹ کرے گا۔ اس قانون سے عدلیہ کے اختیارات میں کمی نہیں آئے گی۔
جواب میں مزید کہا گیا کہ اپیل کا حق قانون کے آرٹیکل 184/3 کے تحت دیا گیا ہے، آئین کا آرٹیکل 10 اے بھی فیئر ٹرائل کا حق دیتا ہے، آرٹیکل 184/3 میں نظرثانی کا اختیار بہت محدود ہے۔ منصفانہ اور فیئر ٹرائل کے لیے اپیل کا حق بہت ضروری ہے۔
وفاقی حکومت نے اس حوالے سے الگ درخواست دائر کی ہے جس میں کیس میں فل کورٹ بنانے کی استدعا کی گئی ہے۔
حکومت نے کہا کہ عدالت کے سامنے پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیارات، عدلیہ کی آزادی اور اداروں کے اختیارات کی تقسیم سے متعلق آئینی سوالات ہیں۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے خلاف درخواستیں ایک اہم آئینی معاملہ ہے۔ تشکیل دیے گئے بینچ پر بھی بھی آئینی نوعیت کے سوالات اٹھائے گئے۔
حکومت کا کہنا تھا کہ فل کورٹ درخواست کا مقصد کسی جج کو شامل کرنا نہیں بلکہ سپریم کورٹ کے تمام ججز پر وفاق کا اعتماد ہے، اس لیے کیس کی سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دیا جائے۔