مبینہ آڈیو لیکس کی تحقیقات کےلیے جوڈیشل کمیشن کا قیام سپریم کورٹ میں چیلنج

چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی جانب سے جوڈیشل کمیشن کے قیام کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں چلنج کرتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ چیف جسٹس کی منظوری کے بغیر سپریم کورٹ کا کوئی جج کسی کمیشن کا حصہ نہیں بن سکتا۔

مبینہ آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے قائم کیے گئے جوڈیشل کمیشن کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیلنج کردیا گیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے قائم کیے گئے جوڈیشل کمیشن کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیلنج کردیا ہے۔

جوڈیشل کمیشن کے قیام کے خلاف آئینی درخواست چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے وکلاء کے توسط دے دائر کی ہے۔

یہ بھی پڑھیے 

لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ کا شیریں مزاری کو رہا کرنے کا حکم

ججز کی آڈیوز لیکس پر تحقیقات کیلئے جسٹس فائز عیسیٰ کی سربراہی میں کمیشن تشکیل

عمران خان کے وکیل بابر اعوان کی جانب سے جمع کرائی گئی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے تشکیل دیئے گئے کمیشن کو کالعدم قرار دیا جائے۔

درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان کی منظوری کے بغیر سپریم کورٹ کے کسی جج کو جوڈیشل کمیشن کا ممبر نامزد نہیں کیا جاسکتا۔

درخواست میں یہ بھی موقف اختیار کیا گیا ہے کہ کسی جج یا ججز کے خلاف کارروائی کا اختیار صرف سپریم جوڈیشل کونسل کو اس لیے وفاقی حکومت کی جانب سے تشکیل دیئے گئے کمیشن کے نوٹی فیکیشن کو کالعدم قرار دیا جائے۔

درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے کسی جج کے خلاف کارروائی کا اصل فورم سپریم جوڈیشل کونسل ہے۔ اس لیے اس کمیشن کو فوری طور پر کام کرنے سے روکا جائے۔ اس کمیشن کی آئین اور قانون میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔

مبینہ آڈیو لیکس پر جوڈیشل کمیشن قائم

واضح رہے کہ ہفتے کے روز وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے ججز اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی آڈیوز لیکس کی تحقیقات سے متعلق تین رکنی جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا تھا ، جس کی سربراہی جسٹس فائز عیسی ٰ کو سونپی گئی ہے۔

جوڈیشل کمیشن سپریم کورٹ کے ججز اور سابق چیف جسٹس کی آڈیو لیکس سے متعلق اپنی رپورٹ 30 دنوں میں وفاقی حکومت کو پیش کرے گی۔

کیبنٹ ڈویژن کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے سابق چیف جسٹس کی متنازع آڈیو لیکس میڈیا میں چل رہی ہیں جوکہ خدشات کو جنم دیتی ہیں۔

نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ ججوں کے بارے میں گفتگو ان کی غیرجانبداری کے بارے میں سنگین خدشات کو جنم دیتی ہے۔ اس پر وفاقی حکومت نے بھی اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔

کیبنٹ ڈویژن کے جاری کردہ نوٹیفکیشن میں یہ بھی کہا گیا کہ عدلیہ آئین کے تحت اہم ستونوں میں سے ایک ہے۔ عدلیہ کی آزادی کو نقصان پہنچے تو معاشرے کا اعتماد ٹوٹ جاتا ہے۔

متعلقہ تحاریر