’توہین پارلیمنٹ‘ کا بل ایوان زیریں کے بعد ایوان بالا سے بھی منظور
بل کو منظوری کے صدر مملکت کو بھیج دیا گیا ہے ، بل قانون کی صورت اختیار کرنے پر توہین کرنے والے شخص کو چھ ماہ قید اور 10 لاکھ روپے جرمانے کی سزا ہوسکتی ہے۔
اسلام آباد: پارلیمنٹ یا اس کی کسی بھی کمیٹی کی توہین کا بل قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ سے منظور کرلیا گیا ، 6 ماہ تک کی سزا تجویز کرنے کا بل پیر کے روز سینیٹ میں پیش کیا گیا تھا، اس موقع پر حال ہی میں ہونے والے کراچی کے میئر کے انتخابات پر پیپلز پارٹی کے سینیٹرز اور جماعت اسلامی کے سینیٹر کے درمیان گرما گرم بحث بعد بات لڑائی جھگڑے تک پہنچ گئی۔
مئی میں قومی اسمبلی سے پاس ہونے والا ’توہین (پارلیمنٹ) بل‘ ایک ضمنی ایجنڈے کے ذریعے پیش کیا گیا تھا ، اراکین قومی اسمبلی نے باآواز بلند بل کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ تاہم قابل اعتراض بات یہ ہے کہ بل منظور ہونے سے قبل اسے قائمہ کمیٹی کے حوالے بھی نہیں کیا گیا تھا۔
اب، مجوزہ قانون کو صدر کی منظوری کے لیے بھیجا جائے گا تاکہ اسے پارلیمنٹ کا ایکٹ بنایا جا سکے۔
مجوزہ بل بلوچستان کے چار اور پنجاب کے ایک سینیٹر نے پیش کیا۔ پیش کردہ سینیٹرز میں کودا بابر، نصیب اللہ بازئی، سرفراز بگٹی، شہزادہ احمد عمر احمد زئی اور رانا محمود الحسن شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
نگراں وزیراعظم کے نام کے حوالے سے ابھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا، خواجہ محمد آصف
قائمہ کمیٹی نے اسلامیہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کی ہدایت کر دی
بل ایوان میں آنے کے فوراً بعد وزیر مملکت برائے قانون شہادت اعوان نے چیئرمین کو بتایا کہ قومی اسمبلی پہلے ہی بل کو متفقہ طور پر منظور کر چکی ہے اور اسے متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھیجے بغیر ووٹنگ کرائی جائے۔
یہ بل ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پارلیمنٹ اور عدلیہ کے درمیان بالادستی کی جنگ جاری ہے۔ اراکین اسمبلی عدلیہ پر ایگزیکٹو کے دائرہ کار میں مداخلت کرنے اور ماضی میں فوجی قوانین کی توثیق کرنے کا الزام لگا رہے ہیں۔
پانچ رکنی توہین عدالت
مجوزہ قانون کے تحت اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے تشکیل دی جانے والی توہین پارلیمانی کمیٹی میں پانچ ارکان شامل ہوں گے جن میں سے تین قومی اسمبلی اور دو سینیٹ سے ہوں گے۔
سیکرٹری قومی اسمبلی توہین عدالت کمیٹی کے سیکرٹری کے طور پر کام کریں گے۔
مجوزہ قانون اسپیکر قومی اسمبلی کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ اس ایکٹ کے نافذ ہونے کے تیس دنوں کے اندر توہین عدالت کمیٹی تشکیل دے سکتے ہیں۔
قومی اسمبلی اور سینیٹ سے دو دو ارکان دونوں ایوانوں میں قائد ایوان اور اپوزیشن کی جانب سے نامزد کیے جائیں گے اور قومی اسمبلی کے ایک رکن کو اسپیکر نامزد کریں گے۔
کمیٹی کو اکثریتی فیصلے سے سزائیں دینے کا اختیار حاصل ہوگا۔ بل میں کہا گیا ہے کہ ’’جو بھی اس ایکٹ کے تحت توہین کا ارتکاب کرے گا، اسے معمولی قید کی سزا دی جائے گی جو چھ ماہ تک ہو سکتی ہے یا جرمانہ جو کہ دس لاکھ روپے تک ہو سکتا ہے یا دونوں سزائیں دی جاسکتی ہیں۔
بل کے مطابق توہین پارلیمنٹ کمیٹی کو "ضابطہ دیوانی پروسیجر 1908” کے تحت سول عدالتوں کا اختیار حاصل ہوگا ، جو کسی بھی شخص کی حاضری کا حکم دے سکے گی اور دستاویزات پیش کرنے کا پابند کرسکے گی۔
کمیٹی کے سامنے تمام کارروائی نیم عدالتی ہوگی اور کمیٹی کی طرف سے پیش کی گئی کوئی بھی دستاویز اور ثبوت کسی بھی عدالت میں بطور ثبوت قابل قبول نہیں ہوں گے۔
بل کے سیکشن 10 میں کہا گیا ہے کہ ایوان کا کوئی بھی فیصلہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے ذریعے عمل میں لایا جائے گا ، بل کے دائرہ کار کے مطابق ملزم کے خلاف "کوڈ آف کرمنل پروسیجر 1898” تحت عارضی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
اس قانون کے تحت فیصلے کے خلاف کوئی بھی اپیل 30 دن کے اندر اسپیکر قومی اسمبلی یا چیئرمین سینیٹ کے سامنے دائر کی جا سکتی ہے۔ کسی بھی ایوان کی استحقاق کمیٹی 60 دن کے اندر استحقاق کی خلاف ورزی یا پارلیمنٹ کی توہین کے معاملے پر سفارشات کے ساتھ ایک رپورٹ تیار کرے گی ، رپورٹ متعلقہ ایوان میں رکھی جائے گی ، تاکہ اس معاملے کو توہین پارلیمنٹ کمیٹی کو بھیجنے کا فیصلہ کیا جاسکے۔
بل کے مطابق، "اس ایکٹ کے تحت کوئی شخص توہین کا مجرم ہے، اگر اس نے جان بوجھ کر کسی رکن، ایوان یا کمیٹی کے استحقاق کی خلاف ورزی کی ہے۔ اراکین کے استثنیٰ یا مراعات کی ضمانت دینے والے کسی قانون کی خلاف ورزی کی؛ ایوان یا کمیٹی کے کسی حکم یا ہدایت کو ماننے میں ناکام یا انکار ثبوت دینے سے انکار کیا یا کمیٹی کے سامنے جھوٹا بیان ریکارڈ کرایا؛ کسی گواہ کو ثبوت فراہم کرنے، دستاویزات پیش کرنے یا کمیٹی کے سامنے پیش ہونے سے روکنے کے لیے یا تو دھمکی، یا طاقت کے استعمال سے اس کی کوشش کی یا متاثر کیا؛ اور کوئی بھی دستاویزات فراہم کرنے میں ناکام رہے یا ایوان یا کمیٹی کے سامنے ترمیم شدہ دستاویزات جمع کرائیں۔
کراچی میئر کا انتخاب
کراچی میں میئر کے انتخابات کا تنازع پیر کو سینیٹ میں بھی گونج اٹھا جب جماعت اسلامی نے پیپلز پارٹی پر الیکشن چوری کرنے کا الزام لگایا اور پیپلز پارٹی کا اصرار تھا کہ اس نے سیٹ فیئر اینڈ سکوائر جیتی ہے۔
سینیٹر مشتاق احمد اور بہرام تنگی کے درمیان بھی گرما گرم الفاظ کا تبادلہ ہوا جس سے چیئرمین کو اپنا مائیک بند کرنا پڑا۔
سینیٹر بہرام تنگی نے جماعت اسلامی کے سینیٹر کے خلاف نازیبا زبان بھی استعمال کی اور ایک موقع پر ان پر حملہ کرنے کی کوشش بھی کی تاہم کچھ ساتھیوں نے مداخلت کرتے ہوئے بیچ بچاؤ کرادیا۔
لفظی جنگ اس وقت شروع ہوئی جب جماعت اسلامی کے سینیٹر نے سینیٹر تاج حیدر کی جانب سے وفاقی حکومت سے لیاری ایکسپریس وے پر الیکٹرک بسوں کو چلنے کی اجازت دینے کی تحریک کی حمایت کی۔