رانا ثناء اللہ سرکاری افسران اور اہل خانہ کو دھمکیاں دینے کے الزام سے بری
شکایت کنندہ چیف سیکریٹری پنجاب کے موقف سے دستبردار ہونے پر جج نے فیصلہ سنادیا۔
گوجرانوالہ کی انسداد دہشت گردی کی عدالت (اے ٹی سی) نے وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کو چیف سیکریٹری پنجاب اور ان کے اہل خانہ کو دھمکیاں دینے کے الزام سے بری کر دیا ہے۔
جج نے یہ فیصلہ سنایا کیونکہ شکایت کنندہ نے اپنا موقف واپس لے لیا ہے ، اس لیے کیس ڈس مس کیا جاتا ہے۔
گجرات کے انڈسٹریل تھانے میں درج مقدمے میں رانا ثناء اللہ آج انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش ہوئے۔
25 اگست 2022 کو درج کیے گئے مقدمے میں رانا ثناء اللہ پر اعلیٰ سرکاری افسران اور ان کے اہل خانہ کو دھمکیاں دینے کا الزام تھا۔
یہ بھی پڑھیے
’توہین پارلیمنٹ‘ کا بل ایوان زیریں کے بعد ایوان بالا سے بھی منظور
اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور اسکینڈل: سپریم کورٹ میں ازخود نوٹس لینے کی درخواست دائر
انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے متعدد بار غیر حاضری کے بعد پولیس کے ذریعے وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کو طلبی کا نوٹس جاری کیا تھا۔
عدالت نے وزیر داخلہ کو ہرحال میں عدالت میں پیش ہونے کی ہدایت کی تھی۔ وزیر داخلہ کے ضامن کو بھی طلبی کا نوٹس جاری کر دیا گیا تھا۔
مدعی شہزاد اسلم عدالت میں اپنے الزامات سے دستبردار ہو گئے جس کے بعد عدالت نے وزیر داخلہ کو الزامات سے بری کر دیا۔
بعد ازاں عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ آج ایک ’’من گھڑت کیس‘‘ اپنے انجام کو پہنچا۔
رانا ثناء کی میڈیا سے گفتگو
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے ریمارکس دیے کہ آئندہ انتخابات میں پاکستانی عوام کو اپنے نمائندے منتخب کرنے کا موقع ملے گا۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ اپنے ذاتی مفادات کو نظر انداز کرتے ہوئے ملک کی ترقی کے لیے کام کیا۔
انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ سابق وزیراعظم عمران خان کے پاس امریکی سائفر ہے اور وہ اس کے ذمہ دار ہیں۔
نگراں سیٹ اپ کے بارے میں قیاس آرائیوں پر مزید تبصرہ کرتے ہوئے، وزیر نے کہا کہ اس بات پر تبادلہ خیال کیا جا رہا ہے کہ نگراں وزیر اعظم ایک سیاستدان ہونا چاہئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ن لیگ عوام کے ردعمل کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کرے گی۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا مہنگی بجلی اسحاق ڈار کا تحفہ نہیں بلکہ یہ آئی ایم ایف کی شرط کے تحت مہنگی کی گئی ہے ، اس میں ن لیگ کا کوئی قصور نہیں ہے۔