سوشل میڈیا پر مہم چلا کر میرا تعلق ایک سیاسی جماعت سے جوڑا گیا، چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ

پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس جسٹس ابراہیم خان نے کہا ہے کہ سوشل میڈیا پر میرے خلاف مہم چلا کر میرا تعلق ایک سیاسی جماعت سے جوڑنے کی کوشش کی گئی۔

تفصیلات کے مطابق ٹرانسپریسی انٹرنیشنل رپورٹ میں عدلیہ کو پاکستان کا کرپٹ ادارہ قرار دینے کے معاملے پر پشاور ہائیکورٹ میں کیس کی سماعت ہوئی۔

چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس ابراہیم خان نے کیس کی سماعت کی جبکہ ٹرانسپریسی انٹرنیشنل بورڈ کے ممبر حبیب حشمت عدالت میں پیش ہوئے۔

چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ نے کہا کہ ’میرا کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں، سوشل میڈیا پر میرے اور عدالت کے خلاف مہم چلائی گئی اور ایک سیاسی پارٹی سے جوڑنے کی کوشش کی گئی جبکہ عدالت قانون کے مطابق فیصلہ کرتی ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ایک سیاسی رہنما جس کا تعلق صوابی سے ہے ان کو سوشل میڈیا پر میرا کلاس فیلو دکھایا گیا، کوئی مجھے ثابت کر دے کہ میں ان سے ملا ہوں، ایک سیاسی جماعت کے سربراہ نے عدالتی فیصلوں پر دھمکی دی پھر جب توہین عدالت کیس میں انہیں طلب کیا تو انہوں نے معافی مانگی اور پھر باہر جا کر عدالت پر تنقید کی‘۔

چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ نے کہا کہ ہم نے پھر جب اس معاملے پر لارجر بینچ بنایا تو انہوں نے پیش ہوکر غیر مشروط معافی مانگیم اپنی ذات کو بالائے طاق رکھ کر عدالت نے اسے معاف کر دیا۔

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے نمائندے سے سوال کرتے ہوئے چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ نے کہا کہ ’کیسے ٹرانسپریسی انٹرنیشنل نے نظرے کی بنیاد پر عدالت کو کے پی میں دوسرا کرپٹ ادارہ رپورٹ میں شائع کیا، ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل سروے میں 80 فیصد لوگوں نے عدلیہ کو صاف قرار دیا۔

ٹرانسپرنسی انٹر نیشنل رپورٹ کیس کی سماعت کے دوران عدالتی معاون پروفیسر نیاز ہل یونیورسٹی یو کے ویڈیو لنک کے ذریعے شریک ہوئے اور بتایا کہ کے پی کی آبادی چار کڑور سے زائد ہے، صرف 1600 لوگوں کو سروے میں شامل کیا گیا، 54 سروے فارم مسترد ہوئے، 1546 میں سے صرف 39نے کہا کہ جوڈیشری کرپٹ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’پانچ لوگوں نے صرف کہا کہ ہم نے عدالیہ کو رشوت دی ہے، 780 لوگوں نے سروے میں کیا رائے دی رپورٹ میں اسکا ذکر نہیں، ٹرانسپریسی انٹر نیشنل رپورٹ میں کچھ چیزیں حقائق پر نہیں مفروضوں پر مبنی ہے‘۔

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے ممبر حبیب حشمت نے کہا کہ ’ہم نے سروے رپورٹ میں میگا کرپشن کی بات نہیں کی، رپورٹ عوام کی رائے پر مبنی ہے، پروفیسر کے اٹھے گئے اعتراضات کا ہم جواب دیں گے، ہمیں یہ رپورٹ فراہم کی جائے‘۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ’ہمیں اس معاملے کا حل نکالنا اور عدلیہ کو 100 فیصد صاف کرنا چاہتے ہیں،آپ ہمیں بتا دیں اور نشاندہی کریں تاکہ عدالت کرپٹ افراد کے خلاف کاروائی کرے گی۔

عدالت نے ممبر ٹرانسپیرینسی بورڈ کو جواب جمع کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت 19 فروری کی دوپہر تین بجے تک ملتوی کردی۔

متعلقہ تحاریر