انسانی ترقی کی فہرست میں پاکستان ہیٹی اور زمبابوے سے بھی پیچھے
انسانی ترقی کی فہرست میں پاکستان ہیٹی اور زمبابوے سے بھی پیچھے رہ گیا۔
سابق نائب وزیر خزانہ ڈاکٹر عائشہ پاشا نے کہا ہے کہ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے کہ جو انسانی ترقی میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں اور اب جبکہ ملک مسلسل قرض کے جال میں پھنستا جارہا ہے جس کے نتیجے میں مزید انسانی تباہی آئے گی، وہ عالمی بینک کے تحت منعقد کیے گئے پاکستان معاشی گول میز سیمینار سے خطاب کررہی تھیں جس میں دنیا بھر میں انسانی ترقی کے حوالے سے 203-24 کی رپورٹ پر روشنی ڈالی گئی۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہیٹی اور زمبابوے جیسے افریقی ممالک میں انسانی ترقی کی فہرست میں پاکستان سے آگے ہیں۔ اقوام متحدہ کی فہرست کے مطابق ایسے ممالک جو 119 سے 160 ویں نمبر کے درمیان ہیں انھیں انسانی ترقی کی فہرست میں وسطی ممالک سمجھا جاتا ہے جبکہ پاکستان اس سے بھی نچلی فہرست میں 164 ویں نمبر پر ہے۔
ڈاکٹر عائشہ پاشا کا کہنا تھا کہ پاکستان اس وقت قرضوں کے جال میں پھنس چکا ہے اور اس کے پاس اتنے وسائل نہیں بچے ہیں کہ وہ انسانی ترقی پر خرچ کرسکے کیونکہ نیشنل فنانس کمیشن کے تحت صوبوں کو ان کا حصہ دینے کے بعد وفاق کے پاس اتنا پیسہ بھی نہیں بچتا کہ وہ لیے گئے قرض پر سود کی ادائیگی کرسکے لہذا انسانی ترقی کی فہرست میں مزید نیچے جانے کے خدشات ہیں اور اس کے ساتھ ہی ملک میں خوراک کے مسائل بھی پیدا ہوسکتے ہیں۔
اقوام متحدہ ترقیاتی پروگرام کے پاکستان میں نمائندے سیموئل رزک کا کہنا تھا کہ انسانی ترقی کی فہرست میں پاکستان اس وقت 164 ویں نمبر پر ہے اور اس کا شمار کم ترین آمدنی والے ممالک میں ہوتا ہے۔ سیموئل رزک نے مزید کہا ہے کہ پاکستان کے ہمسایہ ممالک انسانی ترقی کے حوالے سے بہتر کام کررہے ہیں۔ پاکستان میں اس وقت انسانی مساوات کے حوالے سے ترقی بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے جبکہ صنفی مساوات کے انڈیکس اور غربت کے حوالے سے بھی کارکردگی انتہائی خراب ہے۔
سماجی شعبے کے ایک تحقیقی ادارے سے وابستہ ڈاکٹر اسد سید کا کہنا تھا کہ پاکستان کو اس وقت قرضوں کے مسائل کا سامنا ہے اور اس کی بنیادی وجہ بیرونی ادائیگیاں ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان کو انسانی ترقی کے بحران کا بھی سامنا ہے کیونکہ حالیہ برسوں کے دوران ملک میں شرح خواندگی، تعلیم، صحت، غربت اور دیگر انسانی فلاحی شعبے بری طرح تباہ ہوئے ہیں۔
اس موقع معروف ماہر معاشیات ڈاکٹر قیصر بنگالی کا کہنا تھا کہ صوبائی یا قومی اسمبلی کا ایک بھی رکن اس بنیاد پر الیکشن نہیں ہارا حالانکہ اس نے اپنے علاقے میں تعلیم کے لیے کچھ نہیں کیا۔