چیئرمین نیب کی بیورو کے متاثرین سے ملاقاتیں، ماضی کے غلط اقدامات پر معذرت کا اظہار
ملک میں انسدادِ بدعنوانی کے سب سے بڑے ادارے قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین نے ادارے کی جانب سے ماضی میں کیے گئے غلط اقدامات پر نیب کے ستائے ہوئے افراد سے معافی مانگنے کیلئے ملاقاتیں کرنا شروع کر دیا ہے، اُن کا یہ اقدام خوشگوار حیرت کا باعث ہے۔
باخبر ذرائع کے مطابق، جس طرح نیب احتساب کے نام پر ماضی میں سیاستدانوں، بیوروکریٹس اور تاجروں سمیت بہت سے لوگوں کے ساتھ ناروا سلوک رکھتا آیا ہے؛ اس پر چیئرمین نیب لیفٹیننٹ جنرل (ر) نذیر بٹ نے نیب کے متاثرین سے ذاتی حیثیت میں ملاقات کرکے ان کے زخموں پر مرہم رکھنے اور ان سے معذرت کا اظہار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ان ذرائع کا کہنا ہے کہ چیئرمین نیب نے حال ہی میں نیب کے متاثرہ ایک شخص کے اہل خانہ سے ملاقات کی ہے، جو چند سال قبل نیب حکام کی ہراسانی کے باعث انتقال کر گیا تھا۔
نیب کی نئی پالیسی دو دہائیوں سے سرکاری افسران، تاجروں اور دیگر کے ساتھ جو کچھ کر رہی ہے اس سے مکمل طور پر الگ ہے۔
نیب اختیارات کے ناجائز استعمال کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے۔ ان تمام برسوں کے دوران، بیورو کئی معصوم افراد اور ان کے اہل خانہ کیلئے رسوائی کا باعث بنا، انہیں مہینوں اور برسوں تک ٹھوس ثبوت کے بغیر جیلوں میں ڈالا، حتیٰ کہ کچھ کی موت بھی واقع ہوئی۔
سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے اور سیاسی جوڑ توڑ کیلئے بیورو کا بڑے پیمانے پر غلط استعمال کیا جاتا رہا ہے۔
ادارے کے قیام سے اس کی بے رحمی کی کئی داستانیں موجود ہیں لیکن اس کے آخری چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال کے دور میں بیورو نے جس طرح سیاست دانوں، بیوروکریٹس اور تاجروں سمیت بہت سے لوگوں کی عزت اور جان سے کھیلا اس کی نظیر نہیں ملتی۔
موجودہ چیئرمین ادارے کو ظلم و جبر کے کلچر سے دور کر رہے ہیں۔ وہ بیوروکریٹس اور تاجروں کو نیب کی ماضی جیسی بیجا ہراسگی سے بچانے کیلئے پہلے ہی نئے ایس او پیز متعارف کرا چکے ہیں۔ چیئرمین نیب ارکان پارلیمنٹ اور عوامی عہدے رکھنے والے دیگر افراد کو بیورو کی من مانی گرفتاری سے بچانے کیلئے ایس او پیز کے اجراء پر بھی نظر ثانی کر رہے ہیں۔
چند برس قبل نیب کا ایک متاثرہ شخص اسلام آباد کی رہائش گاہ پر مردہ پایا گیا تھا۔ لاش کے قریب ہاتھ سے تحریر شدہ ایک نوٹس ملا تھا جس پر لکھا تھا کہ ’’میری آپ معزز چیف جسٹس سے درخواست ہے کہ وہ نیب کے اہلکاروں کے طرز عمل کا نوٹس لیں تاکہ دوسرے سرکاری افسران کو نہ کردہ جرائم کی سزا نہ ملے۔‘‘
نوٹ میں یہ بھی لکھا تھا کہ ’’اپریل 2017 سے نیب نے میری زندگی ’’اجیرن‘‘ بنا رکھی ہے، میں اس امید پر اپنی جان دے رہا ہوں کہ آپ معزز چیف جسٹس اس نظام میں مثبت تبدیلیاں لائیں گے جہاں نااہل لوگ احتساب کے نام پر شہریوں کی جان اور عزت سے کھیل رہے ہیں۔‘‘
2018ء میں سوشل میڈیا صارفین سرگودھا یونیورسٹی کے لاہور سب کیمپس کے پروفیسر اور سابق چیف ایگزیکٹیو آفیسر کی بے عزتی پر برہم تھے۔ ان کی ایک تصویر سامنے آئی تھی جس میں دیکھا جا سکتا تھا کہ نیب کی حراست کے دوران وہ دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے جاں بحق ہوگئے اور ان کی لاش کو ہتھکڑیاں لگی تھیں۔
نیب کے ہاتھوں بدعنوانی کے الزام کے تحت گرفتار ہو کر جیل جانے والے خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے ایک سابق سینئر بیوروکریٹ نے بھی 2004ء میں شدید ڈپریشن کے بعد خودکشی کر لی تھی۔
تاہم نیب اور اس کی بے حسی جاوید اقبال کی رخصتی تک برقرار رہی۔
عدلیہ نیب کی انصاف پسندی پر سنگین سوالات اٹھاتی رہی ہے حتیٰ کہ یہ تک نوٹ کیا گیا کہ بیورو کو متعدد مرتبہ سیاسی جوڑ توڑ کیلئے استعمال کیا جاتا رہا ہے لیکن کسی نے اسے بے گناہوں کو ہراساں کرنے اور ان کا شکار کرنے سے نہیں روکا۔