حکومت اور آئی پی پیز کے درمیان تنازع کیا ہے؟
حکومت آئی پی پیز کے ساتھ 400 ارب روپے کا نیا معاہدہ کرنا چاہتی ہے لیکن آئی پی پیز911 ارب کے واجبات کا مطالبہ کر رہی ہیں۔
توانائی کے شعبے میں سرکلر ڈیٹ کے بڑھتے ہوئےگراف اور انڈپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے بڑھتے ہوئے واجب حکومت کے لیے درد سر بن چکے ہیں۔ وفاقی حکومت نے آئی پی پیز کو ایک معاہدے کے تحت 400 ارب روپے ادا کرنے تھے۔ یہ رقم اپ فرنٹ ٹیرف کے ذریعے ادا ہونی تھی۔
یہ معاہدہ 13 اگست 2020 کو ہوا تھا اور اس کے تحت 3 ماہ کے اندر تمام آئی پی پیز نے حکومت کے ساتھ بجلی کی خریداری کے نئے معاہدے کرنے تھے۔ آئی پی پیز کے مطابق ان کے واجبات کا معاہدہ 452 ارب روپے طے ہوا تھا لیکن حکومت اب اِس رقم میں سے 52 ارب روپے کے واجبات کو متنازع بنارہی ہے۔
معاہدے میں یہ بھی طے ہوا تھا کہ حکومت یہ رقم یک مشت ادا کرے گی لیکن بعد میں حکومت نے آئی پی پیز کو400 ارب میں سے 260 ارب روپے ٹی بلز کی صورت میں ادا کرنے پر آمادہ کرلیا۔ یہ ٹی بلز10 سال کے لیے تھے اور ان کا لین دین بھی ہوسکتا تھا۔ اب یہ بھی طے ہوا تھا کہ 140 ارب روپے نقد ادا کیے جائیں گے لیکن ابھی تک یہ وعدہ بھی پورا نہیں ہوسکا۔
یہ بھی پڑھیے
عمران خان توانائی کے گردشی قرضے پر افسردہ کیوں؟
ابھی حکومت اور آئی پی پیز کے درمیان یہ رسہ کشی جاری تھی کہ محمد علی کمیشن نے یہ آئی پی پیز اور حکومت کے درمیان طے پانے والے معاہدوں پر کئی نئے انکشافات کرکے اس گتھی کو مزید الجھا دیا اور اب نوبت نیپرا میں کیس تک جاپہنچی ہے۔ آئی پی پیز کا موقف ہے کہ ان کے ساتھ کیےگئے معاہدے نیپرا میں زیر سماعت نہیں ہوسکتے اور اُنہیں ثالثی کی عالمی عدالت میں ہی حل کیا جاسکتا ہے۔
13 اگست کے بعد معاہدہ ہونے کے 3 ماہ کے اندر بجلی کے ان معاہدوں کو حتمی شکل میں آنا تھا جو نہیں ہوسکا اوراب مزید 3 ماہ یعنی 13 فروری تک تمام معاہدوں پر اتفاق ضروری ہے ورنہ آئی پی پیز حکومت کے ساتھ طے پانے والے معاہدوں کی شقوں پر عمل درآمد کی پابند نہیں ہوں گی۔
وزارت توانائی کے لیے مشکل
وزارت توانائی اس وقت توانائی کے واجبات کے بحران کے سلسلے میں چومُکھی لڑرہی ہے۔ ایک تو 400 ارب روپے کے واجبات فوری ادا کرنے ہیں دوسرے 13 فروری 2021 سے پہلے تمام معاملات کا تصفیہ کرکے47 آئی پی پیز کو دوبارہ بجلی کی پیداوار کی طرف لانا ہے۔ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ توانائی کا زیر گردش قرضہ یعنی سرکلر ڈیٹ 2880 ارب روپے تک پہنچ رہا ہے۔
بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کا دباؤ ہے کہ2880 ارب روپےکے سرکلر ڈیٹ کے قرضے جو حکومت پاکستان نے پاور ہولڈنگ کمپنی میں چھپا رکھے ہیں انہیں بجٹ خسارے کا حصہ بنانا پڑے گا اور یوں بجٹ خسارہ بے قابو کرنا پڑے گا۔ ایک طرف خسارہ بڑھ رہا ہوگا اور دوسری طرف ٹی بلز کے ذریعے اگر ادائیگیاں کی گئی تو قرضہ بھی بڑھے گا۔
کابینہ کی توانائی کمیٹی کا کردار
کابینہ کی توانائی کمیٹی کو وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کے ماتحت کیا گیا ہے۔ یہ کمیٹی بھی وزارت خزانہ، وزارت توانائی اور دیگر متعلقہ محکموں اور وزارتوں کے حکام کے ساتھ مل کر 400 ارب روپے کی بڑی رقم ادا کرنے کے لیے سرجوڑے بیٹھی ہے۔ اس سلسلے میں کئی اجلاس ہوچکے ہیں لیکن اب تک کوئی واضح طریقہ کار منظر عام پر نہیں آیا ہے۔ کوئی ایسا طریقہ کار بھی وضع نہیں کیا جاسکا ہے جسے کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی میں لے جا کر واجبات کے اس جمع تفرق کے کھاتے کو بند کیا جا سکے اور نقصان کو روکا جاسکے۔
آئی پی پیز کا دعوی ہے کہ حکومت کو اُن کے 911 ارب روپے ادا کرنے ہیں جس میں سے صرف 400 ارب روپے ادا کرنے پر حکومت راضی ہوئی ہے۔ لیکن آئی پی پیز کا موقف ہے کہ اگست 2020 میں اُن کے دعوے کے مطابق سرکلر ڈیٹ کی مد میں واجب الادا رقم 810 ارب روپے تھی جو اب 6 ماہ میں 101 ارب کے اضافے کے بعد 911 ارب روپے ہوگئی ہے۔