ایک تصویر نے کشمیر کے سینکڑوں بچوں کی تعلیم آسان بنا دی
شیرین خان نے اپنی کہانی سناتے ہوئے کہا کہ وہ کسی امیر گھرانے سے تعلق نہیں رکھتی ہیں اس لیے خطرات مول لینے، سمارٹ فیصلے کرنے اور سخت محنت کرنے کے بارے میں بہت جلد جان لیا۔
برطانیہ میں مقیم پاکستانی لڑکی شیرین خان نے وطن کی محبت اور تعلیم دوستی کی خاطر لاک ڈاؤن کے دوران برطانیہ میں مقررہ اوقات سے زیادہ کام کرکے یعنی اوور ٹائم لگا کر ملازمت کی تاکہ وادی لچھراٹ کے گاوں چیربن پنجکوٹ میں بچوں کے سکول کی عمارت کی تعمیر مکمل ہوسکے۔
شیرین خان نے وادی نیلم کے گیٹ وے اور لائن آف کنٹرول کے قریبی علاقے پنجکوٹ میں 15 برس سے کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کے سکول کی عمارت تعمیر کرنے میں مسلسل جدوجہد کی تاکہ ان کا پہلا خواب حقیقت کا روپ دھار سکے۔
شیرین خان اسکول کے افتتاح کے لیے لندن سے مظفرآباد پہنچیں اور گورنمنٹ بوائز پرائمری سکول کی اس عمارت کا افتتاح کیا جس کی مکمل تعمیر میں انہوں نے خطیر رقم سے معاونت کی تھی۔ سماجی کاموں کے جذبے سے سر شار شیرین خان نے اپنے پہلے خواب کی تکمیل کو جب اپنی آنکھوں سے دیکھا تو خوشی کے مارے ان کے آنسو روک نکل آئے۔
افتتاحی تقریب کے بعد شرین خان نے کلاسز کا معائنہ کیا اور بچوں میں تحائف تقسیم کیے۔ اس اسکول کی کلاس چہارم میں زیر تعلیم طالبہ عالیہ نے بتایا کہ ’جب عمارت نہیں تھی تو ان کے لیے برف، بارش اور تیز دھوپ کے دوران تعلیم حاصل کرنا ناممکن ہو جاتا تھا کیونکہ موسمی کی سختیوں کے باعث ہمیں چھٹی دی جاتی یا کرنی پڑتی جس سے تعلیم کا حرج ہوتا مگر اب سکول کی عمارت بن جانے کے بعد ہمیں تعلیمی سفر کرنی میں بہت آسانی ہے۔‘
یہ بھی پڑھیے
آزاد کشمیر ونٹر ٹورازم فیسٹیول میں بڑی تعداد میں سیاح شریک
شیرین خان کون ہیں؟
شیرین خان کا تعلق راولپنڈی سے ہے اور وہ وہیں پیدا ہوئی تھیں۔ تین برس کی عمر میں وہ والدین کے ہمراہ لندن منتقل ہوگئیں جہاں انہوں نے اعلی تعلیم حاصل کی۔ شیرین خان اب برطانیہ میں ایک کاروبار سے وابستہ ہیں اور پولیسیسٹک اویوری سنڈروم کی ترجمان اور وکیل ہیں۔ جسے پی سی او ایس کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ ادارہ خواتین کی ترقی اور ان کو بااختیار بنانے کے لئے خواتین کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے۔ شیرین خان کا کہنا ہے کہ ’میرے والدین کی نصیحت تھی کہ جب کمانا شروع کرو تو اپنے لوگوں کی مدد کرو۔ اس نصحیت کے پیش نظر میں سماجی کاموں کے لیے ذہنی طور پر تیار تھی۔‘
انہوں نے کہا کہ وہ یہ جان کر حیرت زدہ رہ گئیں کہ کشمیر میں زلزلے کے 15 سال بعد بھی کچھ اسکول ابھی تک دوبارہ تعمیر نہیں ہوسکے ۔ انہوں نے کہا میں نے ایک تصویر میں دیکھا کہ سکول کے بچوں کی ایک بڑی تعداد میں عمارت کے بغیر ایک سڑک کے کنارے ، درختوں کے نیچے اور بوسیدہ شیلٹر میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ جس کو دیکھ اُنہوں نے وہاں ایک سکول تعمیر کرنے کا سوچا۔
انہوں نے بتایا کہ ’لاک ڈاؤن میں میرا کاروبار مکمل بند ہو گیا تھا اور حکومت کی جانب سے دی جانے والی ریلیف سے بھی میں استفادہ نہیں کر سکتی تھی مگر میں نے اپنا خواب پورا کرنے یعنی اس سکول کی تعمیر کے لیے اوور ٹائم لگایا اور پیسے حاصل کیے جو سکول کی تعمیر کے لیے بھیجے۔‘
فلاحی کام کرنے کے لیے امیر ہونا ضروری نہیں
شیرین خان نے اپنی کہانی سناتے ہوئے کہا کہ وہ کسی امیر گھرانے سے تعلق نہیں رکھتی ہیں اس لیے خطرات مول لینے، سمارٹ فیصلے کرنے اور سخت محنت کرنے کے بارے میں بہت جلد جان لیا۔ لیکن کسی بھی چیز سے بڑھ کر ، وہ ہمیشہ ہی یہ مانتی رہی ہیں کہ بچپن اور اچھی تعلیم ہی سے سب کچھ شروع ہوتا ہے۔
انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ آزاد جموں و کشمیر میں اپنے خرچے سے مزید سکول تعمیر کرنا چاہتی بلکہ صحت کے شعبہ میں تعاون کرنا چاہتی ہیں۔ گورنمنٹ پرائمری سکول چیربن میں 200 سے زیادہ بچے اور بچیاں زیر تعلیم ہیں اور 1000 نفوس کی آبادی والے علاقے کے لیے یہ واحد بوائز پرائمری سکول ہے جہاں بچے اور بچیاں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔