پاکستان میں صحافت سیاسی جماعتوں کی میراث

غیرجانبدار صحافتی حلقوں کا کہنا ہے کہ چینلز کی ریٹنگ کی دوڑ میں کہیں صحافت پیچھے نہ رہ جائے اور لفافہ صحافت آگے نکل جائے۔

پاکستان میں صحافت سیاسی جماعتوں کی میراث بنتی جارہی ہے۔ آئے روز پاکستان کے مختلف نجی ٹی وی چینلز مختلف سیاسی جماعتوں کی ترجمانی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

گذشتہ دنوں اے آر وائی نیوز چینل نے اپنے ذرائع سے جاتی امراء میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے ہونے والے اجلاس کی اندرونی کہانی سے متعلق بریکنگ نیوز دی تھی۔ اے آر وائی کے مطابق اجلاس کے دوران مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز اور حمزہ شہباز کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا تھا۔

اے آر وائی نیوز چینل کے مطابق اجلاس کے دوران حمزہ شہباز کا مریم نواز کو کہنا تھا کہ میرے لیڈر میاں نواز شریف ہیں اور آپ کی سیاست میری سمجھ سے باہر ہے۔

اے آر وائی نیوز چینل کی مریم نواز اور حمزہ شہباز کے حوالے سے منفی رپورٹنگ پر ردعمل دیتے ہوئے معروف صحافی حامد میر نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں لکھا کہ یہ دیکھیں آج دوپہر مریم نواز اور حمزہ شہباز کی شدید لڑائی ہورہی تھی اور مولانا فضل الرحمٰن دونوں کے درمیان بیٹھ کر مسکرا رہے تھے۔ مولانا صاحب کی ہمت کو سلام ہے کہ وہ لڑائی کے عین بیچ میں بیٹھ کر مسکرانے کا فن جانتے ہیں۔

اے آر وائی نے تب بھی منفی رپورٹنگ کی تھی جب چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) بلاول بھٹو زرداری نے حمزہ شہباز شریف اور مریم نواز نے علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کی تھیں۔

گذشتہ دنوں پاکستان کے سب سے زیادہ دیکھے جانے والے چینل جیو نیوز کے اینکر پرسن شاہ زیب خانزادہ اپنے پروگرام میں انکشاف کیا تھا کہ پاکستان کو ایل این جی کے سودوں میں 122 ارب روپے کا نقصان اٹھا پڑا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

وزیراعظم عمران خان کے مخالفین نے اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا

اس انکشاف پر وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے سیاسی اُمور شہباز گل نے ٹوئٹر پیغام میں شاہ زیب خانزادہ کو چھوٹا ارسطو قرار دیتے ہوئے لکھا کہ کمال کی صحافت ہے۔ خریداری کی 57 ارب کی اور گھاٹا پڑ گیا 122 ارب کا۔

صحافت کا مقصد خبر کو اُی انداز میں عوام تک پہنچانا ہے جیسے وہ وقوع پزیر ہوئی ہو۔ اُس میں نا تو کسی قسم کی تحریف کی گئی ہو نا ہی اضافہ۔ لیکن پاکستان میں مختلف نیوز چینلز مختلف سیاسی جماعتوں کے موقف اور بیانیے کو آگے بڑھاتے ہیں اور اُن سیاسی جماعتوں سے اپنے مفادات کا تحفظ کرواتے ہیں۔

آج کل اگر پاکستان میں ایسے نسریاتی ادارے کو تلاش کیا جائے جو حقیقی معنوں میں غیر جانبدار ہو تو شاید کوئی ایک بھی ادارہ نہیں مل پائے۔

متعلقہ تحاریر