بلوچستان میں جمہوریت اپنے جوبن پر

جمعے کے روز مالی سال 2021-22 کے بجٹ پیشی کے موقع پر بلوچستان اسمبلی کا احاطہ میدان جنگ کا منظر پیش کرتا رہا۔

کہتے ہیں کہ اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہوتا ہے۔ پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں جمعے کے روز جمہوریت میں اختلاف رائے اپنے جوبن پر دیکھا گیا۔ 18 جون کو بلوچستان اسمبلی میں مالی سال 2021-22 کا بجٹ پیش کیا گیا۔ بجٹ کے موقع پر ہنگامہ آرائی کی نئی روایت قائم کی گئی جس کی مثال صوبے کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ صوبائی اسمبلی کا احاطہ سارا دن میدان جنگ کا منظر پیش کرتا رہا۔

بلوچستان اسمبلی میں ہنگامہ آرائی اس وقت شروع ہوئی جب اپوزیشن جماعتوں کے ارکان اور ان کے حمایتیوں نے نئے بجٹ میں ان کی تجاویز نظرانداز کیے جانے پر اسمبلی کے گیٹ کو تالے لگا دیئے۔ وزیراعلیٰ جام کمال خان اور حکومتی ارکان کو صوبائی اسمبلی میں داخل ہونے سے روکنے کی کوشش کی گئی۔ اس موقع پر پولیس نے بکتر بند گاڑی سے مقفل گیٹ توڑ دیا۔ مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس کی جانب سے آنسو گیس کا استعمال کیا گیا جس سے 3 ارکان اسمبلی زخمی ہوگئے۔ اس دوران وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان پر جوتا بھی پھینکا گیا۔

یہ بھی پڑھیے

درختوں کی تعداد میں سندھ نے خیبر پختونخوا کو پیچھے چھوڑ دیا

بلوچستان اسمبلی میں موجود جمعیت علمائے اسلام (ف)، بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) مینگل، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور آزاد اراکین پر مشتمل متحدہ اپوزیشن بجٹ میں مبینہ طور پر نظرانداز کیے جانے کے خلاف 4 روز سے احتجاج کر رہیں تھی۔ وزیر خزانہ بلوچستان میر ظہور بلیدی نے احتجاج، ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ کے دوران مالی سال 2021-22 کا 584 ارب روپے کا بجٹ پیش کردیا۔ بجٹ تقریر کے دوران اپوزیشن ارکان ایوان سے غیرحاضر رہے۔

بلوچستان اسمبلی کے بجٹ اجلاس سے قبل اپوزیشن ارکان نے اسمبلی کے چاروں دروازے تالے لگا کر بند کردیئے تھے۔ پولیس حکام نے ایم پی اے ہاسٹل کے قریب اسمبلی گیٹ کھلوانے کی کوشش کی جس پر اپوزیشن ارکان اور پولیس حکام کے درمیان تلخ کلامی ہوئی۔

بلوچستان جمہوریت جوبن

اس دوران پولیس کی بکتر بند گاڑی نے ٹکر مار کر اسمبلی کا گیٹ توڑ دیا جس کے زد میں آکر رکن اسمبلی بابو رحیم مینگل اور عبدالواحد صدیقی زخمی ہوگئے۔ واقعے کے بعد پولیس اور اپوزیشن ارکان آمنے سامنے آگئے اور ہاتھاپائی کی۔ جبکہ پولیس نے اپوزیشن ارکان کو منتشر کرنے کے لیے شیلنگ کی جس کے نتیجے میں اسمبلی کے احاطے میں رکھے گملے اور کھڑیوں پر لگے شیشے ٹوٹ گئے۔

اس دوران اپوزیشن نے وزیراعلیٰ جام کمال خان اور حکومتی اراکین کو اسمبلی میں داخل ہونے سے روکنے کی کوشش کی تاہم بلوچستان اسمبلی کی سکیورٹی انہیں اندر لے جانے میں کامیاب ہوگئی۔ اس دوران وزیراعلیٰ جام کمال خان پر جوتا بھی اچھالا گیا۔

اس سے قبل بلوچستان اسمبلی کے قائد حزب اختلاف ملک اسد سکندر کا کہنا تھا کہ وہ بلوچستان اسمبلی کے چوکیدار ہیں۔ کسی کو اسمبلی کے اندر جانے اور بجٹ پیش نہیں کرنے دیں گے۔

بلوچستان اسمبلی کے باہر اپوزیشن جماعتوں کا بھرپور احتجاج جاری تھا تو دوسری جانب صوبائی وزیر خزانہ ظہور احمد  بلیدی نے مالی سال 2021-22 کے لیے 584 ارب روپے کے حجم کا ٹیکس فری بجٹ پیش کردیا۔ بجٹ میں کل خسارہ 84 ارب 72 کروڑ روپے ظاہر کیا گیا ہے۔ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن کی مد میں 10 فیصد اضافے اور 15 فیصد ڈسپیریٹی ریڈکشن الاؤنس کا بھی اعلان کیا گیا۔ بجٹ میں مختلف سرکاری محکموں میں 5 ہزار 854 نئی آسامیاں بھی تخلیق کی گئی ہیں۔

بلوچستان اسمبلی کے بجٹ اجلاس کے دوران ہونے والی ہنگامہ آرائی کی مثال صوبے کی پارلیمانی تاریخ میں نہیں ملتی جس دوان جمہوریت اپنے جوبن پر دیکھی گئی۔ بجٹ اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کا کہنا تھا کہ ’بجٹ اپوزیشن کے حلقوں سمیت بلوچستان کے عوام کے لیے ہے۔ آج ہم نے وہ دیکھا جو شاید بلوچستان کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا۔ آج خاتون رکن اسمبلی پر بھی حملہ کیا گیا اور ان پر گملا پھینکا گیا۔‘

متعلقہ تحاریر