پی ایم ڈی اے مخالف صحافتی تنظیمیں؛ کیا صدارت اتفاقیہ ہی جنگ گروپ کے ہاتھ میں ہے؟
میڈیا تنظیموں نے پی ایم ڈی اے کے مجوزہ قانون کو بھیانک قرار دے دیا۔
جنگ گروپ اور دیگر میڈیا اداروں کی طرف سے پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی (پی ایم ڈی اے) بل کی مخالفت ہورہی ہے۔ حیران کن طور پر میڈیا کی بڑی تنظیموں کے اعلیٰ عہدیداران کا تعلق جنگ گروپ سے ہے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ شاید اسی لیے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے میڈیا مالکان کو بھارتی فلم کالیا کے کردار سے تشبیہ دی تھی۔
ذرائع کے مطابق پاکستان براڈکاسٹرز ایسوی ایشن (پی بی اے) کے علاوہ کئی صحافتی تنظیمیں بھی مجوزہ پی ایم ڈی اے کے خلاف اپنی تشویش کا اظہار کرچکی ہیں۔ دوسری جانب وزیرمملکت فرخ حبیب نے کہا ہے کہ اس بل میں ہماری توجہ صحافتی اداروں کے کارکنوں، صحافی برادری اور میڈیا ورکرز کی نوکریوں کو تحفظ دینے پر ہے۔
پی بی اے کے یکم جون کے اجلاس کے بعد جاری کردہ پریس ریلیز میں بتایا گیا کہ مجوزہ اتھارٹی بیوروکریسی کے ذریعے میڈیا کی آزادی پر قدغن لگانے اور ان پر قابو پانے کی کوشش ہے۔ میڈیا تنظیموں نے پی ایم ڈی اے کے مجوزہ قانون کو بھیانک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایوب خان کے دور میں بھی صحافتی آزادی کو کچلنے کے لیے ایسی ہی ایک کوشش کی گئی تھی۔
یہ بھی پڑھیے
پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی بل کا مقصد پولیسنگ نہیں، فرخ حبیب
دلچسپ امر یہ ہے کہ نیوز 360 نے تحقیق کی تو علم ہوا کہ میڈیا کی کئی ایسی تنظیموں کی قیادت جنگ گروپ سے وابستہ عہدیداروں کے ہاتھوں میں ہے جو اس وقت پی ایم ڈی اے کے مجوزہ قانون کو بھیانک قرار دے رہی ہیں۔
آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی (اے پی این ایس) کے صدر سرمد علی ہیں جن کا تعلق جنگ گروپ سے ہے۔ ایسوسی ایشن آف الیکٹرونک میڈیا ایڈیٹرز اینڈ نیوز ڈائریکٹرز (اے ای ایم ای این ڈی) کے صدر اظہر عباس ہیں جو جنگ گروپ کے چینل جیو نیوز کے ایم ڈی بھی ہیں۔ نیشنل پریس کلب کے صدرشکیل انجم ہیں جوکہ جنگ گروپ سے وابستہ ہیں، کراچی پریس کلب کے صدر فاضل جمیلی ہیں، ان کا تعلق بھی جنگ گروپ سے ہے۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ (پی ایف یو جے) کی اسلام آباد کمیٹی کے ممبر افضل بٹ ہیں اور ان کا تعلق بھی جنگ گروپ سے ہی ہے۔
ان ناموں پر غور کریں تو وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کی میڈیا مالکان کو بھارتی فلم کالیا کے کردار سے دی گئی تشبیہ یاد آجاتی ہے۔
فواد چوہدری نے کچھ روز پہلے ہی کہا تھا کہ پرانی بھارتی فلم “کالیا” میں سیٹھ فیکٹری میں اپنی ہی یونین بنا لیتا ہے، ہمارے یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ میڈیا مالکان نے اپنی ہی تنظیمیں بنائی ہوئی ہیں جو صحافیوں کے حقوق کے بجائے مالکان کے مفادات کا تحفظ کرتی ہیں۔