ڈبلیو ایچ او کا جنگ زدہ افغانستان میں صحت سے متعلق خدشات کا اظہار
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر رک برینن کے مطابق اس ہفتے کے آخر تک 2300 صحت کے مراکز کو بند کیا جاسکتا ہے۔
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کے ڈائریکٹر رک برینن نے کہا ہے کہ جنگ زدہ افغانستان میں طبی سہولتوں کے حوالے سے جلد مسائل سر اٹھا سکتے ہیں کیونکہ طالبان حکومت کے بعد سے بہت مغربی ممالک نے اپنی مالی امداد روکنے کا عندیہ دے دیا ہے۔
معروف امریکی جریدے رائٹرز کو انٹرویو دیتے ہوئے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے علاقائی ایمرجنسی ڈائریکٹر رک برینن کا کہنا تھا کہ ملک کے 90 فیصد علاقے پر قائم 2 ہزار 300 طبی مراکز کو اس ہفتے کے آخر تک بند کیا جاسکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
نائن الیون: 2 دہائیوں کے بعد بھی مسلمان مذہبی تعصب کا شکار
انہوں نے خدشہ کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر طالبان نے اپنے وعدوں پر عملدرآمد نہ کیا تو ہوسکتا ہے کہ مغربی ممالک اپنی امداد کو روک لیں۔
رک برینن نے کہا ہے کہ ملک کی بڑی آبادی کو ملنے والی صحت سہولیات کو کسی بھی وقت روک سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق ملک کے 90 فیصد حصے پر قائم صحت کے بنیادی مراکز کو ختم کیا جاسکتا ہے ، اور یہ وہ صحت کے مراکز ہیں جہاں لوگوں کی بیماری کی تشخیص سے لے کر اس کے علاج تک طبی سہولتیں فراہم کی جارہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ڈبلیو ایچ او 500 ہیلتھ سنٹرز کو ادویات کی سپلائی، سرجیکل آلات اور رقم فراہم کرنے کی کوشش کررہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا ہے کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) قطر کی فضائی کمپنی کے ساتھ رابطے میں ہے تاکہ ادویات کی ترسیل کو ممکن بنایا جاسکے۔
انہوں نے کہا کہ "ہم امید کر رہے ہیں کہ دو یا تین ہوائی جہازوں کا طبی سامان قطر کی حکومت کے تعاون سے اگلے ہفتے کابل پہنچ جائے گا۔ طبی سامان میں دائمی بیماریوں سے لڑنے کی ادویات اور کووڈ ٹیسٹ کا سامان شامل ہے۔”
رک برینن نے بتایا کہ شمالی شہر مزار شریف کے ذریعے طبی سامان کی ترسیل جاری ہے اور ڈبلیو ایچ او پاکستان سے آنے والے ٹرکوں کے ذریعے زمینی راستے بھی تلاش کر رہا ہے۔