بھارت کی نئی ڈومیسائل اسکیم، ہندو بھی جھانسے میں نہ آئے
کشمیر سے ہجرت کرنے والے ہندو اور سکھ افراد کیلیے ڈومیسائل اجرا کی حکومتی اسکیم ناکام
بھارتی حکومت کی جانب سے پرانے کشمیری ہندوؤں کیلیے گزشتہ برس متعارف کروائی گئی نئی ڈومیسائل اسکیم ناکام ہوگئی، ہندو اور سکھ برادری کے افراد نے رجسٹریشن فارم تک وصول نہیں کیے۔
نئی ڈومیسائل اسکیم جموں و کشمیر انتظامیہ کی طرف سے علاقے کے سابق رہائشیوں کو دی جارہی ہے جس میں شہریوں کی اکثریت نے کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔ اسکیم ان افراد کےلیے ہے جن کے آباؤ اجداد برسوں پہلے ریاست سے باہر چلے گئے تھے لیکن وہ جموں میں ریلیف اینڈ ریہیبلی ٹیشن کمشنر(RRC)کے ساتھ رجسٹر ہیں۔
مذکورہ اسکیم کا اعلان 16 مئی 2020 کو کیا گیا تھا لیکن کشمیر میں رہائش رکھنےوالے سابق ہندوافراد کی عدم دلچسپی کے باعث اسکیم کیلیےرجسٹریشن کی آخری تاریخ میں 15 مئی 2022 تک توسیع کردی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیے
انڈیا کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو کبھی دبا نہیں سکتا، اسد عمر
1980 کی دہائی کے آخر میں جب کشمیری مسلمانوں نے آزادی کی جدوجہد شروع کی تو علاقے سےسکھوں کے علاوہ پنڈت برادری نے بڑے پیمانے پر ہجرت کی۔بھارتی انتظامیہ کو امید تھی کہ ہندواور سکھ اس پیشکش سے فائدہ اٹھائیں گے جس سے ان کے لیے زمین کی ملکیت کے ساتھ ساتھ مرکزی علاقے میں ملازمتوں اور تعلیمی مواقع کے حصول میں آسانی ہوگی۔
بھارتی حکومت کی توقعات کے برعکس 1989 میں دہلی میں سکونت اختیار کرنے والے 25000 غیررجسٹرڈکشمیری پنڈت خاندانوں میں سے صرف 3000 نے موجودہ اسکیم کیلیے فارم حاصل کیے جن میں سے806کو اسی وقت رجسٹر کرکےجموں وکشمیرکے ڈومیسائل سرٹیفکیٹ جاری کردئیے گئے۔
8 اگست 2019 کو بھارت نے آرٹیکل 370 اور 35A ختم کرکےکشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کردیا تھا جس کے بعدمقامی شہریوں کونئی مشکلات کا سامناہے۔کشمیری شہریوں کی نقل وحرکت پرغیراعلانیہ پابندیاں ہیں،علاقےمیں انٹرنیٹ سروسزسمیت ٹیلیفون کی سہولت آئے دن معطل کردی جاتی ہے۔ انہی پابندیوں کودیکھتے ہوئے ماضی میں کشمیرکی شہریت رکھنے والے ہندو خاندان بھی وہاں جانے کے لیےتیار نہیں۔
آر ایس ایس کے ایک رکن اشوک کھجوریہ نے اعتراف کیا کہ دہلی کیمپ میں بہت سے خاندانوں کو موقع پر ہی ڈومیسائل سرٹیفکیٹ جاری کیے گئےتاہم ان کی تعداد بہت کم تھی ۔ دوسری جانب کشمیر میں سیاسی جماعتیں اس خدشے کا اظہار کررہی ہیں کہ بھارتی اقدام کا مقصد اسمبلی میں ہندوؤں کی نشستوں کو بڑھانا ہے۔ کھجوریہ نے کہا ، "ہمارے پاس جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں جموں کے علاقوں کے لیے 24 نشستیں مخصوص ہیں،ہم حکومت سے درخواست کر تے ہیں کہ ان میں سے ایک تہائی کو کالعدم قرار دیا جائے کیونکہ ان کی ایک تہائی آبادی یہاں بھارت میں مقیم ہے۔”