بھارتی حکومت نے اپنے جاسوس کلبھوشن یادیو کو تنہا چھوڑ دیا
3 مارچ 2016 میں گرفتار ہونے والے بھارتی جاسوس کو پاکستان میں دہشتگردی کے الزامات کے تحت 2017 میں فوجی عدالت نے سزائے موت سنائی تھی۔
بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو بھارتی بحریہ کے حاضر سروس کمانڈر تھے جو انڈین جاسوسی ایجنسی ریسرچ اینڈ اینالیسس ونگ (را) سے وابستہ تھے۔
پاکستانی حساس ادارے کے اہلکاروں نے بھارتی جاسوس کو 3 مارچ 2016 کو گرفتار کیا تھا اور 2017 میں فوجی عدالت نے اس کو سزائے موت سنائی تھی۔
بعد ازاں انہوں نے فوجی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے سے انکار کر دیا تھا ، جبکہ پاکستانی حکام نے اسے ایسا کرنے کی پیشکش کی تھی۔
یہ بھی پڑھیے
پاکستان کے جاسوسی غبارے بھارت پہنچ گئے
انڈین حکومت نے کلبھوشن یادیو کے لیے انڈین وکیل مقرر کرنے کی درخواست دی تھی جبکہ قانون کے مطابق صرف مقامی وکیل ہی اس کیس کو دیکھ سکتا ہے جو اسلام آباد ہائی کورٹ میں رجسٹرڈ ہو گا۔ تاہم انڈین وکیل اس کو پاکستانی وکیل کو مشورے دے سکتا ہے جو اس کیس کو دیکھے گا۔
انڈین حکومت نے اپنے نیوی کمانڈر اور جاسوس کلبھوشن یادیو کو تنہا چھوڑ دیا ہے۔ اٹارنی جنرل نے حکومت پاکستان کی طرف سے بھارتی حکومت کو بھجوائی گئی دستاویزات عدالت میں پیش کرتے ہوئے بتایاکہ بھارت کو عدالت کے آرڈر کے مطابق یہ پیغام پہنچایا گیا لیکن ابھی تک ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے حوالے سے انڈیا کو وکیل مقرر کرنے کے لیے ایک اور مہلت دینے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں لارجر بنچ نے عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے تناظر میں بھارتی جاسوس کلبھوشن جادیو کو قونصلر رہائی سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران اٹارنی جنرل آف پاکستان خالد جاوید خان اور عدالتی معاون ایڈوکیٹ حامد خان بھی عدالت پیش ہوئے۔ اٹارنی جنرل نے حکومت پاکستان کی طرف سے بھارتی حکومت کو بھجوائی گئی دستاویزات عدالت میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ 5 مئی کو اس عدالت نے تفصیلی آرڈر پاس کیا تھا کہ بھارت کو کلبھوشن کے لیے وکیل کرنے کی کوشش کی جائے، انڈیا کو عدالت کے آرڈر کے مطابق یہ پیغام پہنچایا گیا لیکن ابھی تک ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔
عدالت کا کہنا تھا کہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر ہم نے عمل کرانا ہے لیکن بھارت کو اس میں دلچسپی نہیں ہے، اٹارنی جنرل نے کہاکہ ایسی صورت حال میں وفاقی حکومت نے درخواست دی تھی کہ کلبھوشن کے لیے وکیل مقرر کیا جائے، بھارتی حکومت اور کمانڈر کلبھوشن یادیو کے انکار پر ہی اس عدالت میں اپیل دائر کی گئی۔
عدالت نے استفسار کیاکہ کیا عدالتی نمائندہ مقرر ہونے پر بین الاقوامی عدالت انصاف کے فیصلہ پر عمل درآمد ہوگا؟ اس موقع پر اٹارنی جنرل نے مختلف عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ ویانا کنونشن کے مطابق کسی بھی غیرملکی فوجی قیدی کو شفاف ٹرائل اور نظرثانی اپیل کا حق ہے۔
عدالت نے کہاکہ ہم تو ویانا کنونشن کے قوانین کے تحت اس کیس میں جائیں گے مگر حکومت کیسے اسے ہینڈل کرے گی۔؟ اٹارنی جنرل نے کہاکہ پاکستانی حکومت بین الاقوامی عدالت انصاف فیصلہ کے تناظر میں اس عدالت میں آئی ہے۔
جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ ہم کیسے نظرثانی اپیل یا نمائندہ مقرر کرسکتے ہیں، اٹارنی جنرل نے کہاکہ نظر ثانی اپیل یا نمائندہ مقرر کرنے کے لیے کسی کو اپیل دائر کرنا ہوگی۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہاکہ عدالت نے نوٹسز کیے تھے کمانڈر کلبھوشن یادیو اور بھارتی حکومت انکاری ہے۔ عدالت نے کہاکہ اگر دونوں فریق نمائندہ مقرر کرنے سے انکاری ہیں تو ہم کیسے فیئر ٹرائل کرسکتے ہیں۔؟ اٹارنی جنرل نے کہاکہ وفاقی حکومت عالمی عدالت انصاف کے رویوو اور ری کنسڈریشن کے فیصلے پر مکمل عملدرآمد چاہتی ہے۔ عدالت نے کہاکہ ہم تو قونصلر رسائی کی حد تک تو اس کو دیکھ رہے ہیں اس پر تو عمل درآمد بھی ہو چکا۔
اٹارنی جنرل نے کہاکہ ہم کہتے ہیں وکیل مقرر کیا جائے جو اس کیس میں بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی طرف سے ریوو دائر کرے گا، ہم کسی غیر ملکی وکیل کو یہاں پیش ہونے کی اجازت نہیں دے سکتے ہیں وہ یہاں سے وکیل کر سکتے ہیں۔ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ بھارت چاہتا ہے قونصلر رسائی کے نام پر ان کے نمائندے اکیلے کلبھوشن یادیو سے ملیں، بھارتی نمائندوں کو کلبھوشن کے ساتھ اکیلے کمرے میں نہیں چھوڑ سکتے، وہ اکیلے میں اس سے محض ہاتھ ملا کر کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ عدالت نے کہاکہ کلبھوشن اور بھارت حکومت کو ایک اور ریمانڈر بھی بھیجیں، عدالت نے بھارت کو کلبھوشن یادیو کے لیے وکیل مقرر کرنے کی ایک اور مہلت دیتے ہوئے کہاکہ بھارتی حکومت اور کلبھوشن یادیو کو اس عدالت کا آرڈر پہنچا دیں اور کیس کی مزید سماعت ملتوی کردی۔